بھارتی ماں کی بیٹی کملا ہیرس نائب صدر کیسے بنیں؟

کم لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہونے والی کملا ہیرس در اصل صدارتی دوڑ میں جو بائیڈن کے خلاف نبردآزما تھیں۔کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ ڈیموکریٹ سینیٹر ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں تھیں تاہم بائیڈن نے اپنے انتخاب کے بعد کملا کو اپنے نائب صدر کے طور پر چن لیا تھا۔ کملا ہیرس نے امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ کملا صرف امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی غیر سفید فام شخصیت بھی ہیں جو امریکہ کی نائب صدر بنی ہیں۔
کملا ہیرس کی والدہ انڈیا جبکہ انخے والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ریاست کیلی فورنیا کی سابق اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں اور نسلی تعصب کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کے نظام میں اصلاحات کی بھی حامی رہی ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں اب تک صرف دو خواتین کو نائب صدر کے امیدوار کے طور پر چنا گیا ہے۔ رپبلکن جماعت کی جانب سے سارہ پالن کو 2008 میں چنا گیا تھا اور جیرالڈین فیریرو کو ڈیموکریٹس کی جانب سے 1984 میں تاہم دونوں کی وائٹ ہاؤس تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ کمالہ ہیرس ریاست کیلی فورنیا کے شہر اوکلینڈ میں پیدا ہوئیں۔ والدین کی طلاق کے بعد کملا ہیریس کی پرورش بنیادی طور پر ان کی ہندو سنگل والدہ شیاملا گوپالن ہیریس نے کی جو کہ کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن تھیں۔ وہ اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی رہتی تھیں لیکن ان کی والدہ نے پوری طرح آکلینڈ کی سیاہ فام ثقافت کو اپنا لیا تھا اور انھوں نے اپنی دو بیٹویں کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو اسی تہذیب و ثقافت میں رچا بسا دیا تھا۔
‘دی ٹرتھ وی ہولڈ’ نامی اپنی خود نوشت میں کملا لکھتی ہیں: ‘میری والدہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ وہ دو سیاہ فام بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ انھیں پتہ تھا کہ ان کا اختیاری مادر وطن مجھے اور مایا کو دو سیاہ فام لڑکی کے طور پر دیکھے گا اس لیے وہ یہ یقین دہانی کرنا چاہتی تھیں کہ ہم پراعتماد اور فخر کرنے والی سیاہ فام خاتون کے طور پر بڑے ہوں۔’ سینیٹر ہیرس نے بچپن میں کچھ وقت کینیڈا میں بھیے گزارے۔ جب گوپالان نے میک گل یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس کا انتخاب کیا تو وہ اپنے ساتھ کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا بھی لے گئیں جنھوں نے مونٹریل کے سکول میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے امریکہ میں کالج کی تعلیم حاصل کی اور چار سال ہارورڈ یونیورسٹی میں گزارے جو کہ ملک میں تاریخی اعتبار سے سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے وہاں گزارے اپنے وقت کو اپنی زندگی کے سب سے تعمیری تجربات والی زندگی میں سے ایک بتایا ہے۔ کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شناخت کے متعلق ہمیشہ مطمئن رہیں اور اپنے آپ کو محض ‘امریکی’ کہتی ہیں۔
2019 میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ سیاستدانوں کو اپنے رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خانوں میں فٹ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا: ‘میرا کہنا بس یہ ہے کہ میں جو ہوں سو ہوں۔ میں اس کے ساتھ اچھی ہوں۔ آپ کو اس کا اندازہ لگانے کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن میں اس کے ساتھ ٹھیک ہوں۔’ ہارورڈ میں چار سال رہنے کے بعد کملا ہیرس نے ہیسٹنگز میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے قانون کی ڈگری کی اور المیڈا کاؤنٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ وہ 2003 میں سان فرانسسکو کے لیے اعلی ترین ڈسٹرکٹ اٹارنی بن گئیں۔ اس کے بعد وہ امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا میں اعلی وکیل اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی حیثیت سے ابھریں اور کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون اور پہلی سیاہ فام شخص منتخب ہوئیں۔
اٹارنی جنرل کی حیثیت سے اپنے عہدے کی تقریبا دو میعادوں میں ہیرس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ابھرتے ہوئے ستارے کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور ترقی و شہرت کی اس رفتار کا استعمال کرتے ہوئے 2017 میں کیلیفورنیا کی جونیئر امریکی سینیٹر کی حیثیت سے اپنے انتخاب کو مہمیز دی۔ امریکی سینیٹ میں منتخب ہونے کے بعد کملا نے سینیٹ کی اہم سماعتوں میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے نامزد امیدوار بریٹ کاوانوف اور اٹارنی جنرل ولیم سے تیکھے سوالات کرنے کے لیے ترقی پسندوں میں مقبولیت حاصل کی۔
گذشتہ سال کے آغاز میں جب انھوں نے کیلیفورنیا کے شہر آکلینڈ میں 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کے ہجوم کے درمیان صدارتی امیدواری کی کوششوں کا آغاز کیا تو 2020 کے صدارتی امیدوار کے لیے ان کی امیدواری پر ابتدا میں جوش و خروش دیکھا گیا۔ لیکن سینیٹر اپنی انتخابی مہم کے بارے میں کوئی واضح دلیل پیش کرنے میں ناکام رہیں اور انھوں نے صحت کی دیکھ بھال جیسے کلیدی پالیسیوں میں سوالوں کے الجھے ہوئے جوابات دیے۔ وہ اپنی امیدواریت کی واضح برتری کا بھی فائدہ اٹھانے سے قاصر رہیں جیسے مباحثے میں اپنی پراسیکیوٹر والی مہارت کا مظاہرہ اور مسٹر بائیڈن کو اکثر حملے کی زد میں رکھنا وغیرہ۔ کیلیفورنیا کی ڈیموکریٹ اور قانون نافذ کرنے کا تجربہ رکھنے والی ہیرس نے اپنی پارٹی کے ترقی پسند اور اعتدال پسند دونوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتی لیکن وہ کسی کو بھی خوش نہیں کر سکیں۔ یہاں تک کہ 2020 کے اوائل میں آئیووا میں ہونے والے پہلے ڈیموکریٹک مقابلے سے قبل دسمبر میں ہی ان کی امیدواری ختم ہو گئی۔
مارچ میں ہیرس نے سابق نائب صدر کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ‘امریکہ کے اگلے صدر کے انتخاب میں ان کی مدد کرنے کے لیے میرے اختیار میں جو بھی کام ہے وہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔’ اب جبکہ امریکہ میں نسلی مباحثہ جاری ہے اور پولیس کی بربریت پر جانچ پڑتال کی جارہی ہے ایسے میں کملا ہیرس نے ترقی پسندوں کی آواز کو اٹھانے اور زور و شور کے ساتھ بڑھاتے ہوئے صف اول کی نششت لے لی ہے۔ ٹاک شوز کے دوران اور ٹوئٹر پر وہ امریکہ بھر میں پولیس کے طرز عمل میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ کینٹیکی سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ افریقی نژاد امریکی خاتون بریونا ٹیلر کو ہلاک کرنے والے پولیس افسران کی گرفتاری کا مطالبہ کرتی ہیں اور اس بارے میں اکثر باتیں کرتی ہیں کہ نظام میں شامل نسل پرستی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
کملا کے بطور اپنے ساتھی کے طور پر انتخاب کے وقت بائیڈن نے ٹویٹ کیا تھا کہ ان کے لیے یہ ‘بڑے اعزاز’ کی بات ہے کہ وہ کملہ کو اپنا نائب چن رہے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ کملہ نہ صرف ایک ‘نڈر جنگجو’ ہیں بلکہ ایک اعلی ’عوامی خدمت گار‘ بھی رہی ہیں۔ انھوں نے لکھا تھا کہ انھوں نے کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے ان کے آنجہانی بیٹے باؤ کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ انھوں نے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ‘میں نے انھیں بڑے بینکوں کے خلاف لڑتے، نوکری پیشہ افراد کی ہمت بندھاتے اور خواتین اور بچوں کو تشدد سے بچاتے دیکھا ہے۔ مجھے اس وقت بھی فخر تھا اور آج بھی فخر ہے کہ وہ اس مہم میں میری شراکت دار ہیں۔
جواب میں کملا نے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ بائیڈن ‘امریکہ کی عوام کو متحد کر سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی پوری زندگی ہمارے لیے لڑتے گزاری ہے۔ بطور صدر وہ ایک ایسا امریکہ بنائیں گے جو ہمارے نظریات کی عکاسی کرے گا۔’ ‘میرے لیے جماعت کی نائب صدر کی امیدوار کے لیے نامزدگی اعزاز کی بات ہے اور میں بائیڈن کو کمانڈر ان چیف بنانے کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑوں گی۔’ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے ردِ عمل دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’یہ ایک ایسی خاتون ہیں جنھوں نے متعدد ایسی کہانیاں گھڑیں جو درست نہیں تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ جیسے کے آپ کو علم ہے کہ انھوں نے پرائمری انتخابات میں بھی بہت بری کارکردگی دکھائی۔ ان سے امید تھی کہ وہ اچھا کریں گی لیکن وہ دو فیصد تک ہی رہیں۔ اس لیے مجھے جھٹکا لگا کہ بائیڈن نے ان کا انتخاب کیا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کملا کا بائیڈن کے ساتھ ڈیموکریٹک پرائمری بحث کے دوران رویہ ’بہت زیادہ تضحیک آمیز‘ اور خوفناک تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’ان کا جو بائیڈن سے رویہ انتہائی تضحیک آمیز تھا اور کسی ایسے شخص کا انتخاب کرنا جو آپ کی بے عزتی کرے یقیناً خاصا مشکل ہوتا ہے۔‘ ادھر سابق امریکی صدر باراک اوباما نے کملا ہیرس کی حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کملا اس عہدے کے لیے ضرورت سے زیادہ تیار ہیں۔ تاہم امریکی صدارتی الیکشن پر تبصرہ کرنے والے تجزیہ نگاروں کی رائے میں بائیڈن کی جانب سے کملا کے انتخاب نے صدارتی الیکشن میں انہیں بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے اور ان کی جیت میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔