خسارے میں چلنے والے اداروں کو کیسے بچایا جائے؟

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 500 ارب روپے کے خسارے میں چلنے والے چار بڑے سرکاری اداروں کی ترقی کا حل بتا دیا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز کے خسارے اور بجلی کے گردشی قرضوں سے بچنے کیلئے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری واحد حل ہے اس سے نہ صرف 500 ارب روپے خسارے سے حکومت بچ سکتی ہے بلکہ پرائیویٹائزایشن سے آنے والی رقم عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر بھی خرچ کی جا سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز ایس او بلند خسارے کی وجہ سے قومی سلامتی کے معاملے بن چکے ہیں کیونکہ ان کا خسارہ وفاقی حکومت کے انتظامی امور چلانے کی لاگت اور آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نام نہاد سرکولرڈیٹ کی مد میں روزانہ ایک ارب روپے کا نقصان کیا جا رہا ہے جس کا کچھ حصہ بجٹ میں فراہم کیا جاتاہے جبکہ باقی ماندہ 10کھرب روپے پاوراورپٹرولیم سیکٹر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا گردشی قرضوں کا واحد حل نجکاری ہے۔تاہم بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے پاس اتنی تکنیکی مہارت ‘انتظامی استعداد اور سرمایہ نہیں کہ وہ ادارے کو مؤثر طریقے سے چلاسکیں جبکہ حکومت کی دخل اندازی، نیپراکی استعداد‘پیپرارولز کے نفاذ سے ان کے معاملات مزیدبگڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کی نجکاری آسان نہیں اس کیلئے جدیداور مؤثر ریگولیٹری انوائرنمنٹ ضروری ہے۔موجودہ نیپرا ریگولیٹری وہ ماحول فراہم نہیں کررہی۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ماضی میں منافع بخش قومی ائیرلائن مسابقت اور ڈی ریگولرائزیشن جیسی دو برائیوں کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔ قومی ائیر لائن کی وجہ سے ہونے والے40 ارب روپے کے نقصان سے بچنے کیلئےقومی ائرلائن کی ایک روپے میں بھی نجکاری گھاٹے کا سودا نہیں۔ نجکاری کر کے سالانہ چالیس ارب روپے غربت میں کمی کے لیے استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان ریلوے بھی قومی ائیر لائن کی طرح ملک کو سالانہ چالیس ارب روپے سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے ناقص منصوبہ بندی کے ذریعے ریلوے کو جدید بنانے سے یہ خسارہ 150ارب روپے تک بھی پہنچ سکتاہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ریلوے کو بھی بدانتظامی ‘تکنیکی مہارت کی کمی اور مالی کمزوری جیسی بیماریاں لاحق ہیں۔ خسارے سے بچنے کیلئے ریلوے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانا چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسٹیل ملزکو ختم کرنا ہی اس کا واحد حل ہے تاہم سٹیل ملز کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ تک تنخواہ ملتی رہنی چاہئے یا پھر ملازمت کی مدت اور تنخواہ کے حساب سے معاوضہ ملنا چاہئے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسٹیل ملز کی اراضی نیشنل اکنامک سیکیورٹی کے طورپر کام آسکتی ہے‘۔ یہ پاکستان کی بہترین اراضی ہے جہاں تیار ڈھانچہ اور براہ ِراست بندرگاہ تک رسائی کی سہولت موجودہے ‘اس کو سی پیک کے تحت صنعتی زون کے طورپر استعمال کیا جاسکتاہے ‘۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اقتدار میں رہتے ہوئے ان اداروں کی نجکاری نہ کرنے کا جواب سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوں گا