بینک صارفین موبائل فون فراڈ سے بچاؤ کیسے ممکن بنا سکتے ہیں؟

جعلسازی، فراڈ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس کے طریقوں میں جدت ضرور آ گئی ہے، پہلے ڈاکو گھروں میں ڈکیتی کرتے تھے جبکہ اب موبائل فون پر ہی لوگوں کو کو لوٹ لیا جاتا ہے۔کراچی کے ایک بینک صارف کو پی ٹی سی ایل کے نمبر سے کم و بیش 9 بار مسلسل کال کی جاتی رہی، دسویں بار یونائٹڈ بینک لمیٹڈ کے صارف نے کال وصول کی کیوں کہ نمبر ہو بہو اسی بینک کے نمبر جیسا تھا، آگے سے مبینہ طور پر نجی بینک کے ہیڈ آفس کے منیجر نے بات کا آغاز کیا اور کہا کہ سال کے اختتام پر اکاونٹس اپگریڈیشن کی جا رہی ہے اور اگر آپ اس عمل کا حصہ نا بنے تو آپ کا اکاونٹ بلاک ہو جائے گا۔نجی بینک صارف نے اپنی تسلی کے لیے مبینہ بینک منیجر سے کہا کہ آپ پر یقین کیسے کیا جائے؟ جس پر ریسیور سے کہا گیا کہ ہمارے پاس آپ کا قومی شناختی کارڈ نمبر، اے ٹی ایم کارڈ نمبر، جس برانچ میں اکاونٹ ہے اس برانچ کا نام سمیت تمام معلومات موجود ہیں، اس کے بعد صارف کا مزید اعتماد حاصل کرنے کے لیے انہیں تمام معلومات بتا دی گئیں۔صارف کو اعتماد میں لینے کے بعد ایک اور پی ٹی سی ایل نمبر سے واٹس پر لنک بھیجا گیا اور صارف کو کہا گیا کہ آپ اس لنک کو کھول کر اپنا یوزر نیم اور پاسورڈ ڈال دیں جو آپ کے ڈیجیٹل اکاونٹ کا ہے۔صارف نے وی نیوز کو بتایا کہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے 2 او پی ٹی ان کے موبائل فون پر آئے، اسی نمبر سے جس سے تنخواہ آنے کی صورت میں پیغام موصول ہوتا ہے، چند منٹوں میں یونائیٹڈ بینک کا ایک صارف اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔جس کے بعد صارف کے مطابق ایک اور پی ٹی سی ایل نمبر سے کال آئی اور ایک خاتون نے مخاطب ہو کر کہا کہ میں یو بی ایل سے بات کر رہی ہوں کیا آپ نے ابھی اتنی بڑی رقم کی ٹرانزیکشن کی ہے جس پر بینک صارف نے کہا کہ میں نے تو کوئی ٹرانزیکشن نہیں کی اور اگر آپ یوبی ایل سے ہیں تو وہ کون ہیں؟ ان چند منٹوں میں صارف نا صرف اپنی محفوظ رقم سے محروم ہوچکا تھا بلکہ اب اسے آگے کی بھی کوئی امید نہیں۔اول تو بینک کی یا کوئی بھی نجی معلومات کسی کو بھی فراہم نہیں کرنی چاہئے لیکن پھر بھی خدانخواستہ ایسا معاملہ ہوتا ہے تو اسٹیٹ بینک کے مطابق آپ نے پہلے تو اپنے متعلقہ بینک سے رجوع کرکے ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور اے ٹی ایم کو بلاک کرنا ہے، اس کے بعد ایف آئی اے سے رجوع کرنا ہے۔ایف آئی اے میں شکایت کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ کی رقم کا اداروں کو اندازہ ہو جائے گا کہ نکالی جا چکی ہے، دوسرا یہ کہ اگر ریکوری ہو جائے تو آپ تک رقم پہنچائی جا سکے، اسٹیٹ بینک کے ذرائع نے نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہمارے پاس اس طرح کا ڈیٹا بریچ کی کبھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ایف آئی اے کے ذرائع نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ یہ او پی ٹی فراڈ ہے، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نا کسی طرح اس کی بنیاد تک پہنچا جائے لیکن اصل مسلئہ معلومات کا لیک ہونا ہے اور یہ بینک کا ہی کوئی ملازم کر سکتا ہے۔