تحریک انصاف سے لیا گیا بلا خٹک کو ملے گا یا بابر کو؟
کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے اس کا انتخابی نشان بہت اہمیت رکھتا ہے۔ الیکشن کے موقع پر یہ انتخابی نشان ہی ہوتا ہے جس کو پہچان کر ناخواندہ ووٹرز بھی آسانی سے اپنے امیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ پھر یہ کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے انتخابی نشان سے اس کے ووٹرز کی جذباتی وابستگی ہو جاتی ہے۔تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا عمرانڈوز میں بہت مقبول ہے۔ تاہم اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے انٹراپارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف پارٹی کے 2019 کے آئین، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہی۔کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کی سیکشن 215 کی شقیں لاگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو اس انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے جس کے لیے انہوں نے اپلائی کیا تھا۔
دوسری جانب سینئر صحافی جاوید چودھری کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات کے لیے بلّے کے بجائے گھڑی کا نشان ملنے کی توقع ہے کیونکہ الیکشن کمیشن میں بعض حکام کا خیال ہے کہ توشہ خانہ ریفرنس کے پیش نظر ‘ گھڑی’ کا انتخابی نشان دے کر پی ٹی آئی اور عمران خان کو انتخابی مہم کے دوران مزید تضحیک کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
جاوید چودھری کے مطابق پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کے لیے درخواست جمع کروا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اپیل کر سکتی ہے اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔جاوید چودھری نے مزید کہا کہ اس کے باوجود بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اس موقع کا کچھ خاص فائدہ نہیں اٹھا سکے گی کیونکہ ‘بلے’ کا نشان ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے کچھ ممبران یا ان سے متعلقہ کچھ لوگ یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کو ‘ گھڑی’ کا انتخابی نشان دے دینا چاہئیے کیونکہ ان پر توشہ خانہ کا کیس چل رہا ہے اور اس کیس کا حوالہ دے کر مسلم لیگ ن کے لوگ انہیں ‘ گھڑی چور’ کہتے ہیں۔ تو جب انہیں گھڑی کا انتخابی نشان ملے گا تو ن لیگ کے لوگ گلی گلی ‘ گھڑی’ کا تماشہ لگائیں گے، ان کا مذاق اڑائیں گے اور عمران خان کو گھڑی چور کہیں گے۔ اس تناظر میں یہی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی مزید کردارکشی کرنی ہے تو پی ٹی آئی کو گھڑی کا نشان الاٹ کر دیا جائے۔ جاوید چودھری کے مطابق آج ‘بلا’ عمران خان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس کے بعد یہ ‘بلا’ پرویز خٹک کو الاٹ ہو گا یا اکبر ایس بابر کو، اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
دوسری جانب روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت کم یوتھیے جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان شروع سے کرکٹ بیٹ یا بلا نہیں تھا۔ جب تحریک انصاف کا دیا یعنی چراغ نہ جل سکا تب بلے کی کہانی شروع ہوئی تھی۔ یہ انیس سو ستانوے کے عام انتخابات کی بات ہے۔ تحریک انصاف نے یہ الیکشن دیا یا چراغ کے انتخابی نشان پر لڑا تھا۔ لیکن ایک سیٹ بھی نہیں جیت پائی تھی۔ عمران خان بیک وقت اٹھارہ حلقوں سے میدان میں اترے تھے۔ لیکن عمران خان کو سب حلقوں میں شکست ہوئی تھی۔ چنانچہ ایسے نئے انتخابی نشان کے لئے سوچ بچار شروع ہوئی جو عوام کے لیے کشش رکھتا ہو۔
اس زمانے میں تحریک انصاف کا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس فور بازار روڈ کے مکان نمبر 66 میں ہوا کرتا تھا۔ ایک دن اسی آفس میں ہونے والی ایک بیٹھک میں، جس میں عمران خان موجود تھے، اکبر ایس بابر نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان کرکٹ بیٹ یعنی بلا رکھنے کی تجویز دی۔ تب اکبر ایس بابر پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے۔ تاہم بیٹھک میں موجود چند دیگر رہنماؤں نے یہ کہہ کر اس انتخابی نشان کی مخالفت کی کہ ’’ہم عمران خان کو کرکٹ کی دنیا سے نکال کر پوری طرح سیاست میں لانے کی کوششوں میں ہیں۔ا نتخابی نشان بلا رکھنے سے چیئرمین پی ٹی آئی کا ذہن پھر کرکٹ کی طرف جائے گا‘‘۔ تاہم عمران خان کی سوئی بلے کے انتخابی نشان پر اٹک چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف دیگر رہنماؤں کے استدلال کو رد کرتے ہوئے اکبر ایس بابر کی تجویز سے اتفاق کیا۔ بلکہ نیا انتخابی نشان الاٹ کرانے کے لیے بطور چیئرمین پارٹی ایک اتھارٹی لیٹر بھی اپنے دستخطوں کے ساتھ اکبر ایس بابر کے حوالے کیا۔ جنہوں نے اگست دو ہزار دو میں الیکشن کمیشن جاکر ’’چراغ‘‘ کی جگہ تحریک انصاف کے لئے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ کی درخواست دی۔ اس وقت جسٹس (ر ) ارشاد حسن خان چیف الیکشن کمشنر جبکہ سیکریٹری الیکشن کمیشن حسن محمد تھے۔ چونکہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کے لئے تین چار سمبل دینے پڑتے ہیں۔ تاکہ اگر ایک نشان مسترد کردیا جائے تو فراہم کردہ فہرست میں سے کوئی دوسرا نشان الاٹ ہوجائے۔
چنانچہ پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع دستاویزات میں بلے یعنی کرکٹ بیٹ کے ساتھ چیتا یعنی ٹائیگر، گھوڑا، لالٹین اور بلب کے انتخابی نشان بھی دیئے گئے تھے۔ تاہم فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ’’بلے‘‘ کو تحریک انصاف کے الیکشن سمبل کے طور پر منتخب کرلیا گیا تھا۔ دو ہزار دو کے بعد سے تحریک انصاف اپنے سارے الیکشن اسی انتخابی نشان پر لڑتی چلی آرہی ہے۔
خیال رہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے علاوہ بھی پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ واپس لئے جانے سے متعلق اس وقت الیکشن کمیشن میں مختلف درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ ان میں سے ایک درخواست استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما عون چوہدری کی ہے۔دیگر درخواست گزاروں میں محمد اعوان ثقلین اور خالد محمود شامل ہیں۔