تحریک انصاف کا ووٹر اس وقت کس کنفیوژن کا شکار ہے؟

سینئر صحافی اور کالم نگار عاصمہ شیرازی نے کہا ھے کہ تحریک انصاف کا آخری ’تکیہ‘ ووٹرز کا بےشمار تعداد میں نکلنا قرار پایا ہے بالفرض یہ معرکہ بھی سر ہو جائے تب بھی تحریک انصاف کے ’آزاد امیدواروں کا دو تہائی یا سادہ اکثریت حاصل کر پانا موجودہ حالات میں مشکل نظر آتا ہے جبکہ ان میں جیتنے والے کتنے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہوں گے یہ ایک الگ سوال ہو گا۔ تحریک انصاف کا ووٹر اس وقت شش و پنج میں ہے کہ اُس کا ووٹ کس جگہ اور کس کو جا رہا ہے؟ اپنے ایک کالم میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی سیاسی جماعتوں کو دوام بخشتی ہے اور یہ محاذ آرائی کچھ نئی بھی نہیں ہے مگر یہاں سیاسی جماعت کا فرق واضح ہوتا ہے کہ وہ کس طرح نظریے کے بل بوتے پر اپنی سیاسی بقا کا سامان کرتی ہے۔ تحریک انصاف سے غلطی نہیں غلطیاں ہوئیں، مگر کہاں؟ رہائی کے بعد پانچ اگست تک وہ وقت تھا کہ عمران خان اپنی غلطیوں کو درست کر سکتے تھے مگر ایک مقبول سیاسی جماعت کو بحران سے میدان میں واپس لانے کا موقع گنوا دیا گیا۔ سیاسی طور پر متحرک جماعت کو محض پریشر گروپ کیوں بنا دیا گیا؟ اسٹیبلشمنٹ کو کندھا بنا کر بھر پور عوامی حمایت کو سیاسی طاقت میں کیوں نہ ڈھالا گیا؟تحریک انصاف کی عوامی پذیرائی جماعت کو مذاکراتی میز پر کیوں نہ لا سکی اور سپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کردہ ’میز‘ پر چھ مئی کے مذاکرات آخری ہچکی کیوں ثابت ہوئے؟
ان سوالوں کے جواب ڈھونڈیں تو حقائق پتہ چلیں گے مگر حقائق سے زیادہ ایک سیاسی جماعت کا یوں زیر عتاب آنا مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ اُن نوجوانوں کی آنکھوں میں اُترتی مایوسی، دُکھ اور خوف کا مِلا جُلا ردعمل نظر آتا ہے جن کی سیاسی متاع تحریک انصاف تھی۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق عمران خان کو تین مقدمات میں سزا ہو چکی، سزاؤں کے اشتہار دیواروں پر چسپاں کر دیے گئے ہیں۔ لفظوں کے تازیانے برسائے جا رہے ہیں اور ابھی القادر ٹرسٹ اور نو مئی کے مقدمات میں فیصلے ابھی باقی ہیں۔
عمران خان کب جیل سے باہر آئیں گے اور کیسے اُن کی جماعت بقا کی جنگ لڑ پائے گی اس سوال کا جواب شاید ہر کوئی جانتا ہے۔ منظر نامہ بدل گیا ہے، انتخابات کا میدان سج چکا ہے اور آٹھ فروری کی رات جب نتائج آنا شروع ہوں گے تو بعد از انتخاب ایک اور پیش منظر ہو گا۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نتائج دو بڑی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوں گے، تحریک انصاف کے ’آزاد‘ بھی ڈوبتے، اُبھرتے اعداد و شمار کی بساط پر ہوں گے یا یوں کہیے کہ ہواؤں کے رُخ پر ہوں گے۔ یہ ’دیے‘ ہواؤں کے رُخ سے اپنی روشنی کا تعین کریں گے۔سیاست کے بے رحم کھیل میں اصل کھیل شطرنج پر بچھی بساط میں مہروں کی چال سے جُڑا ہے اور اس مرحلے پر شاطر کھلاڑی بازی کھیلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ نو فروری کی صبح سے ایک اور بساط ہو گی۔ غم اور غصہ پرچی کے ذریعے نکل جائے گا۔ ووٹ کے لیے گرجنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ چُکے ہوں گے اور برس ہا برس سے میدان سیاست کے جغادری حکومت سازی میں مشغول ہو جائیں گے جبکہ بھانت بھانت کے بیانیے دم توڑ جائیں گے۔ نعرے لگانے والے کارکن، صحافی، سوشل میڈیا ایکٹو سٹ اور انفلوئنسرز سب اپنی کچھاروں میں واپس لوٹ جائیں گے اور تب اڈیالہ جیل کی بیرک میں بیٹھے عمران خان شاید کسی نئے دور کی تلاش شروع کریں۔

Back to top button