تحریک عدم اعتماد پر نفل پڑھنے والے عمران کا یوٹرن


وزیراعظم عمران خان ایک گمنام خط اور گمنام دھمکی کو بطور سرپرائز پیش کرنے کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اسے قوم کے ساتھ ایک مذاق قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کپتان کو یاد دلا رہے ہیں کہ انہوں نے تو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر دو نفل شکرانہ نماز پڑھنے کا دعویٰ کیا تھا کیونکہ انہیں تین چوہوں کی وکٹیں ایک ہی بال میں گرانے کا موقع مل گیا تھا۔ کپتان سے پوچھا جا رہا ہے کہ اگر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بیرونی سازش تھی تو پھر انہوں نے شکرانے کے نوافل کیوں ادا کئے تھے؟ یا ان کا پہلا دعویٰ جھوٹا تھا یا دوسرا جھوٹا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو ایک بین الاقوامی سازش قرار دینے پر مریم نواز نے عمران خان سے سوال کیا ہے کیا آپ کے باغی اراکین اسمبلی امریکہ نے منحرف کروائے ہیں؟
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو جلسے میں سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا، اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کے دوران انہوں نے عوام کو وہ ‘سرپرائز’ بتا بھی دیا لیکن اسے سرکٹا اور گمنام قرار دیا جا رہا ہے۔ پونے دو گھنٹے کی تقریر کے دوران لوگ کپتان کے سرپرائز کا انتظار کرتے رہے، بالآخر آخری دس منٹ میں وزیراعظم نے سرپرائز بتایا، انہوں نے جیب سے خط نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں ملکی مفاد کے نام پر دھمکیاں دی جارہی ہیں لیکن نہ تو میں خط کے مندرجات بتا سکتا ہوں اور نہ ہی یہ بتا سکتا ہوں کہ خط کس نے لکھا ہے۔ موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ خط بالکل اصلی ہے اور اگر کسی کو شک ہے تو میں اف دی ریکارڈ چیک بھی کروا دوں گا۔
تاہم ناقدین کی جانب سے عمران کے دعوے کو بھونڈا قرار دے کر اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی بیرونی طاقت لکھ کر کسی ملک یا اس کے وزیر اعظم کو دھمکی دے گی، تاکہ وہ اسے جا کر جلسے میں لہرا دے۔ سوشل میڈیا پر عمران کی تقریر کے بعد مختلف خطوط وائرل کیے جا رہے ہیں اور کپتان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ایسا ہی ایک خط مختلف ممالک کے سربراہان کی جانب سے لکھا گیا ہے جس میں عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ انکی حکومت کے خلاف ایک سازش تیار کی جا رہی ہے لہٰذا وہ اس خط کو بھرے مجمعے میں لہرا کر اپنے لیے عوامی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے طویل خطاب پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ملک کے نامور صحافیوں نے بھی ردعمل ثاہر کیا ہے۔ سینئر صحافی حامد میر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ عمران کی طویل تقریر ختم ہو چکی اور لوگ سرپرائز کا انتظار کرتے رہ گئے، ایسا کوئی سرپرائز نہ تو تھا اور نہ ہی آنا تھا، اب سرپرائز دوسری طرف سے آئیں گے ۔۔۔اللّٰہ پاکستان کی خیر کرے۔
نیوز اینکر منصور علی خان نے ایک سوالیہ ٹوئٹ کرتے ہوئے پوچھا کہ تقریر تو ختم ہوگئی لیکن ٹرمپ کارڈ کیا تھا۔ سینئر صحافی مبشر زیدی نے بلا تبصرہ ایک وڈیو کلپ شیئر کیا۔ صحافی معز جعفری نے بھی ایک سوالیہ ٹوئٹ کی اور لکھا کہ ٹرمپ کارڈ کیا تھا؟ معز جعفری کی ٹوئٹ پر جواب دیتے ہوئے سینئر صحافی عباس ناصر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کارڈ بہت حساس تھا جسے قومی مفاد میں شیئر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ سینئر صحافی نصرت جاوید نے بھی اپنے ایک سوالیہ ٹوئٹ میں لکھا کہ کپتان کے سرپرائز کو کیا ہوا۔
ملک نامی صارف نے اس بات کا جواب کوک سٹوڈیو کے حال ہی میں ریلیز ہونے والے گانے ’پسوڑی‘ کی ایک سطر سے دیا، ‘آنا سی او نئی آیا’۔
تاہم کچھ لوگوں کو عمران خان کی جانب سے مبینہ دھمکی آمیز خط لکھنے والوں کا نام نہ لینا نہ بھایا۔ بظاہر پی ٹی آئی کے حامی ارسلان اعظم نے لکھا کہ دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والے، چھٹی بڑی فوج رکھنے والے اور ساتویں ایٹمی طاقت بننے والے ملک کے وزیرِ اعظم کو دھمکیاں ملتی ہیں اور دینے والے کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا؟ اُنھوں نے سوال کیا کہ کیا ہم واقعی اتنے کمزور ہیں؟کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے اس خط کی کہانی پر ہی شبہات کا اظہار کر ڈالا اور کہتے نظر آئے کہ کوئی ملک تحریری طور پر دھمکی کیوں دے گا۔ عمار راجپوت نے لکھا کہ خط لکھ رہے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ کچھ لوگوں نے مذاق میں چند لو لیٹرز بھی سوشل میڈیا پر وائرل کیے اور کپتان کے سازشی کا مذاق بنایا۔
تاہم عمران خان نے جس طرح اپوزیشن کو چیلنج کرکے اسلام آ باد میں تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ عددی اعتبار سے بھی ناکام رہا۔ انہوں نے قوم کو ایک بڑا سر پرائز دینے کا اعلان بھی کیا تھا جو انہوں نے ایک گمنام خط اور گمنام دھمکی کی صورت میں دینے کی کوشش تو کی لیکن ناکام رہے۔ وزیر اعظم نےعدم اعتماد کی تحریک کو بیرونی سازش قرار دیا جو انکی اپنی حالیہ تقاریر کی نفی تھی کیونکہ پہلے انہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرنے اور دو نفل پڑھنے کا دعوی کیا تھا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اب انہیں تین چوہوں کی وکٹیں ایک ہی بال میں گرانے کا موقع مل گیا ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران نے ذوالفقار علی بھٹو کو کاپی کرنے کی کوشش کی ہے اور چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کا میابی کی صورت میں وہ سیاسی شہید بن کے عوام میں جائیں۔ تاہم ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

Back to top button