تحریک عدم اعتماد کے بعد؟

تحریر:ماریہ میمن ، بشکریہ : اردو نیوز

تحریک عدم اعتماد کا اونٹ ابھی تک کسی ایک کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس تو 25 مارچ کو طلب ہوچکا ہے اور اس کے بعد تحریک پر ووٹنگ دنوں کی بات ہوگی۔ابھی تک فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف کئی حربے استعمال کیے ہیں۔ حکومت کے طرف سے لفظی گولہ باری عروج پر ہے تو اپوزیشن نے حکومت کے درجن بھر ایم این اے سامنے لا کر کم سے کم حکومت کی عددی برتری میں نقب لگائی ہے۔ اگرچہ ابھی تک ان باغی اراکین کے ووٹ کا تعین ہونے میں قانونی مراحل ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے اتحادی باوجود حکومت پر تحفظات کے کھل کر اپنی پوزیشن واضح نہیں کررہے۔
سوال یہ ہے کہ آخرکار ابھی تک اتنی کنفیوژن کی وجہ کیا ہے؟
اس کا جواب تحریک عدم اعتماد کے بعد کے ممکنہ حالات اور انتظامات کو لے کر غیر یقینی صورت حال میں ہے۔ اپوزیشن نے زور شور اور اعتماد سے تحریک عدم اعتماد تو پیش کردی ہے۔
پی ڈی ایم کی ٹرائیکا کا مثالی اتحاد چل رہا ہے۔ آئے روز مشترکہ پریس کانفرنس ہوتی ہے، ظہر انے اور عشائیے ہورہے ہیں حتیٰ کہ ن لیگ میں شمولیت کے امیدوار پی ٹی آئی کے ایم این اے سندھ ہاؤس میں پی پی پی کے مہمان ہیں۔
اس مثالی بھائی چارے کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا واضح موقف سامنے نہیں آیا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کیا ہوگا۔ اپوزیشن میں تجربہ کار پارلیمینٹیرینز ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ جونہی تحریک کامیاب ہوئی وزیراعظم کا عہدہ خالی ہوجائے گا اور نیا قائد ایوان منتخب ہوگا۔ وہ قائد ایوان کون ہوگا؟ بظاہر یہی تاثر ہے کہ ن لیگ کا نمائندہ ہی سامنے آئے مگر پھر بھی ابھی کچھ بھی واضح نہیں کیا گیا۔
سب سے اہم فیصلہ عدم اعتماد کے بعد آنے والی نئی حکومت کی مدت کا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے فوری الیکشن کے ارادے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ شہباز شریف صاحب کی طرف سے ابھی تک اس بھی پر واضح آن دا ریکارڈ کچھ نہیں کہا گیا۔پیپلز پارٹی کا رجحان اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے طرف ہے مگر ان کی طرف سے بھی موقف غیر واضح ہے۔ کیا ملک اتنی غیر یقینی صورت حال کا متحمل ہو سکتا ہے، جبکہ معاشی حالات دگرگوں ہوں اور یہ بھی نا پتا چلے کہ بجٹ کون پیش کرے گا۔
یہی سوال اتحادیوں کے ذہن میں ہے۔ وہی اتحادی جن پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ کیا ق لیگ صرف دو ماہ کے لیے وزارت اعلٰی سنبھالے گی یا پھر کم سے کم ڈیڑھ سال اپنی کارکردگی دکھانا چاہے گی؟
اس صورت میں ن لیگ کی پنجاب میں سیاست کس طرح متاثر ہوگی جب پی پی پی، ترین گروپ اور ق لیگ برسر اقتدار ہوں گے، اور اگر بات مدت پوری ہونے تک چلی گئی تو اس ڈبل مخلوط حکومت کا کیا ڈھانچہ ہوگا؟ وزیراعظم ایک پارٹی کا، سپیکر دوسری کا اور صدر تیسری پارٹی کا۔ ساتھ سینیٹ، صوبے اور گورنرز کو بھی شامل کر لیجیے۔
دوسری طرف اگر یہ فرض کر لیجیے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری نہیں کرتیں اور صرف کچھ قانون سازی کے بعد تحلیل ہوجائیں گی تو پھر وہ قانون سازی اتنی جلدی کیسے ہوگی۔ صوبائی اسمبلیوں کا کیا ہوگا؟ پہلے کم سے کم تین اسمبلیوں میں تبدیلی آئے اور اس کے بعد پھر ان میں بھی الیکشنز اناؤنس ہوں۔
اس طرح دو دو تین تین ماہ کی حکومتیں ہوں اور اس کے بعد جنرل الیکشنز۔ اپوزیشن میں جو آج کے پرجوش اتحادی ہیں کیا الیکشن ایک اتحاد کے طور پر لڑیں گے یا ایک دوسرے کے خلاف؟ اس سارے عمل کے دوران عمران خان اور پی ٹی آئی تو بہرحال سیاسی میدان میں بھی موجود ہوں گے اور صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کریں گے۔
مختصر یہ کہ عدم اعتماد کے گِرد پائی جانے والی بے چینی سے زیادہ اس کی ممکنہ کامیابی کے بعد کی غیر یقینی صورت حال لوگوں کے پیش نظر ہے۔ اسی لیے اتحادی ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کر پارہے اور اسی لیے ابھی تک مستقبل کی حکومت کا کوئی واضح نقشہ سامنے نہیں آرہا۔
یہ غیر یقینی کی صورت حال ان حلقوں کے بھی پیش نظر ہوگی جن کی ذمہ داری دور رس فیصلہ سازی ہے۔ اسی لیے باوجود درجن بھر لوگوں کے پِھر جانے کے حکومت بھی فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے۔ ابھی تک تو گیند اپوزیشن کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنے مطابق آگے کا نقشہ واضح کرے مگر اس کے لیے بھی وقت زیادہ رہ نہیں گیا۔

Back to top button