ترین اور خٹک نے اپنی الگ الگ سیاسی پارٹیاں کیوں بنائیں؟

پاکستان میں ان دنوں سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ پہلے پنجاب میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں نے استحکام پاکستان پارٹی بنائی اور اب خیبر پختونخوا کے رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے نام سے نئی پارٹی کا اعلان کردیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے پارٹی توڑ کر نئی سیاسی جماعت بنانے کے عمل کو ’پرانا اور ناکام تجربہ‘ قرار دیا ہے اور اس عمل کو ’ملکی بدحالی‘ اور ’جمہوریت کی کمزوری‘ کا موجب سمجھتے ہوئے مستقبل میں ملک و قوم کے لیے مزید نقصان دہ قرار دیا ہے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر اس وقت دی گئی سیاسی جماعتوں کی تفصیل کے مطابق رجسٹرڈ جماعتوں کی تعداد 168 ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جمہوری معاشروں میں تعداد پر کوئی قدغن نہیں ہوتی لیکن زیادہ جماعتیں زیادہ سیاسی و معاشرتی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ انتخابات ہونےوالے ہیں۔ اسی دوران پی ٹی آئی کو توڑ کر پہلے پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی اور اب خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین وجود میں آچکی ہے، لیکن نہ تو استحکام پاکستان پارٹی کو مطلوبہ پزیرائی ملتی دکھائی دے رہی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرنز ابھی عوامی ترجمانی حاصل کر سکے گی۔‘
تجزیہ کار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اداروں اور سیاسی جماعتوں نے آئین کے اصولوں پر عمل نہیں کیا۔سب سے بری خرابی یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے کام کا ماہر ہوتا ہے، جس طرح فوج کے علاوہ کسی کو دفاعی مہارت نہیں اسی طرح فوج کو بھی سیاست میں مہارت نہیں ہوسکتی۔ یہ کام سیاست دانوں کا ہے اور انہیں کرنے دیا جائے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’نہ تو پہلے زبردستی دبائی گئی اور نئی بنائی گئی جماعتوں سے کام چلا اور نہ ہی اب چلنے کا امکان ہے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف کو نو مئی کے واقعات سے قبل ہی چونکہ اقتدار سے دور رکھنے کا فیصلہ ہوچکا ہے، اس لیے اب پارٹی اور قیادت کے خلاف کارروائیاں مزید تیز ہوگئی ہیں۔’اس صورت حال میں پنجاب سے جہانگیر ترین کی قیادت میں جو استحکام پاکستان پارٹی بنائی گئی، اس میں تمام رہنما وہ تھے جو پارٹی قیادت سے پہلے ہی اختلاف کر کے باہر ہوچکے تھے۔ دوران اقتدار ہی جہانگیر ترین اور علیم خان علیحدہ ہوکر پی ڈی ایم سے مل گئے تھے اور انہیں پی ٹی آئی قیادت ’لوٹے‘ قرار دیتی رہی ہے۔’اس کے برعکس پرویز خٹک اور محمود خان دونوں سابق وزرائے اعلیٰ رہے ہیں اور نو مئی کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑی، اس لیے اس جماعت کا بننا کچھ الگ ہے۔‘یہاں سلیم بخاری نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’دیکھنا ہوگا کہ آیا پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز پارٹی رہنماؤں کو کارروائیوں سے بچانے کے لیے بنائی گئی ہے؟‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال میں یہ بات خارج از امکان نہیں ہوسکتی کیونکہ مئی 2013 کے انتخابات کے بعد پرویز خٹک خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ تھے اور دوسری بار بھی وہ وزیراعلیٰ بننا چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا، اس لیے محمود خان کا پرویز خٹک کی نئی پارٹی میں صف اول میں کھڑے ہونا مشکوک لگتا ہے۔‘
سلیم بخاری کے مطابق: ’عمران خان نے بھی خیبرپختونخوا میں بننے والی اس نئی پارٹی پر اپنے ردعمل میں ’گڈلک‘ کہا، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تحریک انصاف کے تمام رہنماؤں کو قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے، تو اگر وہ اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ کسی مقام پر پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز کے سربراہ پرویز خٹک ایک پریس کانفرنس کر دیں کہ ہم عمران خان کو ویلکم کرتے ہیں۔ اس طرح پارٹی بھی بچ جائے اور رہنما بھی سیاسی منظر نامے میں ہی رہیں۔‘
عام انتخابات سے قل نئی سیاسی جماعتوں کے قیام سے متعلق پوچھے گئے سوال پر سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے کہا کہ یہ سب ’سیاسی انجینیئرنگ‘ کا نتیجہ ہے اور اس کا عوامی مسائل کے خاتمے یا جمہوریت کی مضبوطی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حسن عسکری نے مزید کہا کہ ’کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان میں مستقل بنیادوں پر جڑیں بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ کسی الیکشن کو شفاف نہیں مانا گیا، ہر بار مقتدر حلقوں کی مداخلت کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے۔ اس بار بھی وہی پرانا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ ایک جماعت کو انتقامی کارروائیوں سے سیاسی طور پر باہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور توڑ پھوڑ کر کے دھڑے بنائے جارہے ہیں۔‘بقول حسن عسکری: ’بااثر قوتیں اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے پوری طرح سیاسی انجینیئرنگ کرتی ہیں اور ہر بار اشاروں پر چلنے والی حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔ اس کا عوامی مسائل یا جمہوریت کی مضبوطی سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ بڑے لوگوں کو مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی جیسے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار وجاحت مسعود نے بھی اس صورت حال پر کہنا ہے کہ ’آج تک یہی بات با اثر قوتوں کو سمجھ نہیں آسکی کہ انتخابات میں کس نے آنا ہے اور کس نے نہیں۔ یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ کون سی جماعت ملکی نظام میں بہتری اور عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور جسے ووٹ دینا ہے یہ کام عوام کا ہے لیکن یہ دونوں کام بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ خود کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اور ترقی تو کیا مناسب طریقے سے لوگوں کا زندگی گزارنا بھی دشوار ہے۔‘