جادونگری!!

تحریر : سہیل وڑائچ

بشکریہ: روزنامہ جنگ

میرے تضادستان کے رنگ نرالے ہیں ۔یہ ایک جادو نگری بھی ہے جس میں جادو گر اپنے کرتب دکھا کر اور منتر پڑھ کر سب سے آگے نکل جاتے ہیں اور جادو نہ جاننے والے پچھلی صفوں میں کھڑے رہ جاتے ہیں۔جادو میں بھی یہ طاقت ہے کہ منٹوں میں حالات بدل جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے،یک لخت نہ صرف منظر بدلتا ہے، انجام بھی سرے سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ چند دن پہلے جادو گر گنڈا پور نے کچھ ایسا منتر پڑھا کہ سب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ اُڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اسلام آباد پہنچا، وہاں سے پختونخوا ہائوس آیا اور پھراڑتے قالین پر بیٹھ کر واپس پشاور پہنچ گیا نہ کوئی جادو گر کو دیکھ سکا اور نہ پکڑ سکا ۔اسمبلی پہنچ کر اس نے پھر دھاوے کا پروگرام بنایا ابھی ان جادوئی بیانات کا جھاگ بھی نہیں بیٹھا تھا کہ اچانک پھر سے جادو کی چھڑی نے کمال دکھادیا، کل تک پی ٹی آئی اور ریاست کے درمیان آگ اور خون کا کھیل جاری تھا مگر اگلے ہی دن شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے تھے۔محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ۔شعلہ بار گنڈا پور،طَرح دار گورنر کنڈی اور محبوب ِریاست محسن نقوی سب اکٹھے بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔

ہم سوڈان جیسی تفریق کی جانب تو نہیں بڑھ رہے

ہم جیسے فانی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جادو کی چھڑی نے یہ کمال کیسے دکھا دیا ،آگ کی بجائے پھول کیونکر کھل گئے، لڑائی کی بجائے عہدو پیماں کیسے ہو گئے ،کل تک دست وگریبان فریق بغلگیر کیسے ہو گئے ؟ ہمیں یہ تو علم ہے کہ یہ صرف اور صرف جادو کا کمال ہے مگر جادو کا منتر کیا ہے ہم وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر جادو کی چھڑی راتوں رات یہ کرشمہ دکھا سکتی ہے تو پھر ریاست کو اسی جادو کے ذریعے مستقل بنیادوں پر پھولوں کی سیج کیوں نہیں بنا دیا جاتا ؟ آخر قوم کو کانٹوں پر چلانا کیوں ضروری ہے،اگر آن کی آن میں جادو کی چھڑی یا کوئی خفیہ منتر کام آ سکتا ہے تو اسے پہلے سے استعمال میں کیوں نہیں لایا جاتا ؟

وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے دوران نونی حکومت کی قلعی بھی کھل گئی سوائے وزیر داخلہ کے نہ تو کوئی دفاع کرنے والا تھا اور نہ کوئی معاملات کو دیکھنے والا، ایسا کیو ں تھا ؟ یہ درست ہے کہ محسن نقوی کا وزیر اعظم سے مسلسل رابطہ تھا مگر کیا وزیر اعظم ہی اکیلا وفاقی حکومت ہے، باقی سب کہاں تھے ؟ وزیر داخلہ محسن نقوی سے میری دوستی ہے وہ دل کی بات کم ہی کسی کو بتاتے ہیں، وہ دل وجان سے ریاستی اداروں اور ان کے کردارپر فدا ہیں مگر یہ گناہ گار ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کا سخت مخالف ہے اس لئے سیاسی امور پر ہمارا اکثر اختلاف رہتا ہے ،میں کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریر لکھوں یا بولوںتو وہ ناراض ہو جاتے ہیں کئی کئی دن بات چیت بھی بند ہو جاتی ہے پھر کوئی نہ کوئی دوست بیچ میں پڑکر صلح کرا دیتا ہے او رہم اپنے اپنے سیاسی اور نظریاتی موقف پر ڈٹے رہنے کے باوجود دوستی کو برقرار رکھنے پر اتفاق کرتے ہیں۔

حالیہ اسلام آباد مقابلے میں دو ہی فریق نظر آئے ایک گنڈا پور اور دوسرے محسن نقوی، اس دن ایسا لگا کہ اگلا ڈوئل ان کے مابین ہی ہو گا مگر کل پشاور جرگے سے یہ تاثر ملا کہ آگ اور پانی ایک ہو گئے ہیں، ایسا صرف جادو نگری میں ہی ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے ۔

موجودہ نونی حکومت کو تمثیلی انداز میں پیش کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ مقتدرہ کے شانوں پر بچوں کی طرح سوار ہو کر حکومت کر رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے جنرل باجوہ کے دور میں انصافی حکومت کے وزیر اعظم بچوں کی طرح کھلونوں سے کھیلنے کیلئے آزاد تھے ۔ایک وقت آیا کہ جنرل باجوہ کو بھی یہ سوچنا پڑا کہ انصافی حکومت کھلونوں سے ہی کھیلتی رہے گی یا کوئی بہتری بھی لائے گی ۔اب بھی مجھے لگتا ہے کہ مقتدرہ نے نونی حکومت کے جس بچے کو شانوں پر بٹھا رکھا ہے یہ ایک محدود مدت ہے، اس کے بعد وہ چاہے گی کہ بچہ شانوں سے اتر کر خود چلے پھرے بلکہ دوڑے۔اگر نونی حکومت نے ایسا نہ کیا تو جس طرح والدین بچے کو پیار کے باوجود بڑا ہونے پر کندھوں پر نہیں بٹھاتے چلنے پر مجبور کرتے ہیں اب بھی ایسا ہی ہوگا اور اگر نونی حکومت نے پی ٹی آئی کے کمزور ہونے پر بھی خود چلنے کیلئے ہاتھ پائوں نہ کھولے تو پھر نونی بوجھ کوئی نہیں اٹھائے گا۔ میرا اندازہ ہے کہ مقتدرہ اور نونی حکومت کو تحریک انصاف کی سخت مخالفت نے اکٹھا رکھا ہوا ہے جس دن پی ٹی آئی کمزور ہو گئی اس دن مقتدرہ اور نونی حکومت میں بھی فاصلے پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے ۔

ریاست میں جادو کے چلنے کا ذکر تو ہو چکا ۔سیاسی جماعتوں کے اندربھی ہر طرف جادو ہی جادو ہے، تحریک انصاف کے بانی پر اب بھی بشریٰ عمران کا جادو ہی چل رہا ہے فیملی کے اندر سے بہنیں بھی اپنا اتنا جادو نہ چلا سکیں جتنا اثر ان پر اپنی اہلیہ کا ہے۔

 پارٹی کے اندرسب سے زیادہ جادو گنڈا پور کا چل رہا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پشاور جرگہ پر بانی پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہوگا ؟ گنڈا پور اور اسد قیصر، محسن نقوی کے ہمراہ بیٹھے تھے اور عمر ایوب محسن نقوی کے خلاف تقریر کر رہے تھے دیکھیں اب عمران خان گنڈا پوری منتر کو تسلیم کرتے ہیں یا عمر ایوبی طلسم کو مانتے ہیں؟

محسن نقوی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے مقتدرہ اور حکومت کے درمیان مضبوط ترین رابطہ وہی ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی کا حکومت کو گرانے کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن عدالتی راستے سے کئی خطرات کا اندیشہ اب بھی ہے۔ محسن نقوی شروع میں اسلام آباد جاکر گم ہو گئے تھے اور وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کا جو تحرک اور کام تھا وہ پس منظر میں جاتا نظر آرہا تھا مگر انہوں نے ایک بار پھر بائونس بیک کیا ہے البتہ اپنی تمام تر توانائیوں کے باوجود وہ ابھی تک کرکٹ میں ذرہ برابر بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ کرکٹ میں ان کا جادو نہیں چل سکا البتہ اقتدار کی راہداریوں میں ان کا منتر کامیاب ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ اگلے تین ماہ میں سیاست کا منظر اور واضح ہوگا، کوئی نہ کوئی نئی صف بندی ہوگی۔ اگر تو پی ٹی آئی کمزور ہوئی تو حکومت کے اندر نئی گروپ بندی جنم لے گی اور اگر پی ٹی آئی مضبوط ہی رہی تو پھر اس سے ربط ضبط شروع ہو جائے گا۔

Back to top button