8 ججز مکمل انصاف کے نام پر انصاف کا جنازہ کیسے اٹھا رہے ہیں؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 8 مخصوص ججز کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے نے ملک میں ایک بھونچال برپا کر رکھا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے باوجود مخصوص ججوں نے اپنے تفصیلی فیصلے میں اس ترمیم کو سرے سے نظر انداز کر دیا ہے حالانکہ اگر الیکشن کمیشن اس ترمیم کا نفاذ کرتے ہوئے مخصوص نشستیں تقسیم کر دے تو مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔
اپنے تازہ تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مخصوص ججز کی ’’مکمل انصاف‘‘ کی انوکھی معجون نے پارلیمنٹ سمیت تمام انتظامی و آئینی اداروں کے رگ وپے میں ہیجان بپا کر رکھا ہے۔سوال پُرانا ہی سہی مگر آج پوری شدّت سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے اور جواب مانگتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ، راہِ راست سے بھٹکے تو عدالت اس کی گرفت کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے کسی بھی قانون کو اِس دلیل پر کالعدم قرار دے دیتی ہے کہ وہ آئین کے الفاظ یا روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عدالت آئین و قانون کے واضح آرٹیکلز کی نفی کرے تو اُسے کون ٹھیک کریگا؟ میں نے 12جولائی 2024ء کے عدالتی فیصلے کو اُونٹ سے تشبیہ دی تھی جس کی کوئی کَل سیدھی نہیں ہوتی۔ لیکن 23 ستمبر کے تفصیلی فیصلے پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوا کہ میں اِس ’شاہکار‘ سے انصاف نہیں کر پا رہا۔ سچ یہ ہے کہ نہ تو کسی لُغت میں کوئی ایسا لفظ موجود ہے جو اس ’تاریخ شکن‘ فیصلے کی افادیت کا احاطہ کرتا ہو۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی آئینی و قانونی معاملے پر عدالتی فیصلے کے بعد ایسا بھونچال آیا ہو جس کے "آفٹر شاکس” 80 دِن گزر جانے کے بعد بھی تھمنے میں نہیں آ رہے۔ پارلیمنٹ دانتوں میں انگلیوں دابے بیٹھی ہے کہ آئین وقانون کی جیتی جاگتی شقوں کو کس طرح زندہ دَرگور کر دے؟ وہ اگست میں، الیکشن ایکٹ 2017ءمیں کی گئی، موثر بہ ماضی ترمیم کو گود میں لیے بیٹھی ہے جس کی طرف آٹھ جج صاحبان کے ہشت پہلو فیصلے نے آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھا۔ الیکشن کمیشن دِیواروں سے سر ٹکرا رہا ہے لیکن کوئی دَر، کوئی دریچہ نہیں کھُل رہا۔ پہلے اُس نے ایک درخواست کے ذریعے عدالت سے راہنمائی چاہی۔ پھر نظرثانی کی عرضی گزاری۔ پھر ایک متفرق درخواست پیشِ خدمت کی۔ پھر 14 ستمبر کے حکم پر نظرثانی کی التماس کی۔ پھر فیصلہ معطّل کرنے کی استدعا کی۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اور چاروں صوبائی اسپیکرز کے خطوط الیکشن کمیشن کی میز پر دَھرے اُسے اپنی آئینی ذمہ داریاں یاد دِلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، سوا دو ماہ سے اپنی نظرثانی درخواستیں لگنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ تحریکِ انصاف بھی، جو اِس معاملے سے قطعی طور پر لاتعلق بیٹھی تھی، میدان میں آ گئی ہے اور ایک پٹیشن دائر کرچکی ہے۔ فیصلے پر عملدرآمد کےلیے ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں بھی لگ چکی ہے۔ اُدھر خود ایوانِ عدل کے دَرودِیوار پر کپکپی طاری ہے۔ جج صاحبان کے درمیان ’قلمی معرکہ‘ عروج پر ہے۔ ایک دوسرے کو خطوط لکھے جارہے ہیں۔ غرض 12 جولائی کے بعد سے شہرِعدل کی رونقیں جوبَن پر ہیں۔
ڈگری منسوخ ہونے کے بعد عمراندار جج جہانگیری کی چھٹی یقینی ہو گئی
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع تو سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا لیکن مخصوص ججوں نے یہ سیٹیں تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیں۔ یعنی عدالت نے ’’انصاف‘‘ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ’’مکمل انصاف‘‘ کی ٹھانی اور یہیں سے آٹھ جج صاحبان کے ہشت پہلو فیصلے کی اُس فتنہ سامانی کا آغاز ہوا جس کو کسی کروٹ قرار نہیں آ رہا۔ مسئلہ یہ بنا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین بھی نہایت واضح تھا اور قانون بھی۔ ’’مکمل انصاف‘‘ کےلیے آئینی وقانونی شقوں کے چہرے پر کالک تھوپنا ضروری تھا سو تھوپ دی گئی۔ آئین کے آرٹیکل 51(6) میں بتایا گیا ہے کہ آزاد ارکان کو تین دِن کے اندر اندر کسی پارٹی میں شمولیت یا آزاد رہنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت نے ’3‘ کے ہند سے کو ’15‘ سے بدل دیا۔ کیا عدالت کو یہ اختیار تھا؟ کیا وہ آئین میں ترمیم کی مجاز تھی؟ آئین اور قانون کہتے ہیں کہ آزاد امیدوار نوٹی فکیشن کے تین دِن کے اندر اندر صرف ایک بار یہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ عدالت کس طرح آئین وقانون کو پسِ پشت ڈال کر ارکان کو دوسری بار یہ اختیار دے سکتی ہے جب کہ اِن ارکان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک ایسی کوئی عرضی گزاری نہ استدعا کی۔
عرفان صدیقی کے بقول تفصیلی فیصلہ بھی ’’عجائب گھر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیراگراف 32 میں آٹھ جج صاحبان کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کا اطلاق 8 فروری کے انتخابات پر نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ قانون میں ’Subsequent‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ’Subsequent‘ کے معنی فوراً مابعد کے ہیں۔ یعنی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو آنے والے انتخابات میں انتخابی نشان نہیں ملے گا۔ لیکن عدالت کے مطابق پی۔ٹی۔آئی نے جو کچھ بھی کیا، اُس کی سزا کا اطلاق 2029ء کے انتخابات پر ہونا چاہئے تھا۔ جب فیصلہ پہلے کرلیا جائے اور آئین وقانون اُسکی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو ایسے ہی دلائل تخلیق کیے جاتے ہیں۔ ’’مکمل انصاف‘‘ کی معجون دراصل ایسے مرکب سے تیار ہوئی ہے جس نے پارلیمنٹ سمیت تمام انتظامی وآئینی اداروں کے رگ وپے میں ہیجان بپا کردیا ہے۔