جسٹس فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کے نام اعتراضی خط

صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے کیس میں لارجر بنچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے نام  اعتراضی خط لکھ دیا ہے ، خط میں نئے بنچ کی تشکیل کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے   ، خیال رہے کہ 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے سےمتعلق درخواست کی سماعت کی تھی۔

اسی روز ایک عدالتی حکم میں بینچ نے کہا تھا کہ درخواست میں بنیادی حقوق کا معاملہ عوامی مفاد کا ہے لہٰذا یہ آئین کی دفعہ 184(3) کے ذریعے از خود نوٹس لینے کے اختیار پر پورا اترتا ہے۔تاہم قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس لینے کے اختیار کی وضاحت کرنے کے لیے ہفتہ کے روز ایک 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

مذکورہ لارجر بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔نئےبنچ نے پیر کے روز سماعت میں 20 اگست کے حکم معطل کردیا اور کہا کہ اس پر عملدرآمد خودمختار دائرہ اختیار کی درخواست کو غیر واضح اور غیر یقینی بنا سکتا ہے۔

چنانچہ اس پیش رفت پر چیف جسٹس کو 24 اگست کو ارسال کردہ ایک خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین نے سپریم کورٹ کے مختلف دائرہ کار کی تفصیل فراہم کی ہے جو قانون کے ذریعے بھی دیے جاسکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ آئین میں ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں دیا گیا جو ایک بینچ کو دوسرے بینچ کے کام کی نگرانی کی اجازت دے کجا یہ کہ اس کے احکامات کو معطل کردے۔

Back to top button