جنرل باجوہ صحافی کو نشان عبرت بنانے پر کیوں تل گئے؟
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اثاثوں کی تفصیل لیک کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے صحافی شاہد اسلم نے خود پر لگے الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ایف آئی اے بھی ابھی تک اپنے الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ اس سے پہلے جنرل قمر باجوہ نے سینئر صحافی جاوید چوہدری کے ساتھ گفتگو میں یہ الزام لگایا تھا کہ ان کے خاندان کے اثاثوں کا ریکارڈ ایف بی آر کے افسران نے 20 لاکھ روپے میں فروخت کیا۔ ایف آئی اے نے لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی کو گرفتار کرکے یہ الزام لگایا تھا کہ جنرل باجوہ کی جائیدادوں کی تفصیل امریکہ میں مقیم سینئر صحافی احمد نورانی کو شاہد اسلم نے فراہم کی تھی جسے فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ پر بریک کیا گیا تھا۔ تاہم دو روزہ ریمانڈ کے دوران ایف آئی اے اپنا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی اور یہ موقف اختیار کیا کہ شاہد اسلم اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ دینے سے انکاری ہیں اس لئے وہ کوئی ثبوت حاصل نہیں کر پائے۔ لیکن اس کے باوجود صحافی کی ضمانت نہیں ہو پائی۔
اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ شبیر بھٹی نے ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار صحافی کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیاہے۔ دوران سماعت شاہد اسلم کے وکیل میاں علی اشفاق اور سپیشل پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔ علی اشفاق ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب میں بول رہا ہوں تو مجھے ہی بولنے دیں جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں پراسیکیوٹر ہوں میں بولوں گا، تفتیشی افسر نے کہا کہ شاہد اسلم نے بتایا ہے کہ میں ماضی میں ایف بی آر سے ڈیٹا لیتا رہا ہوں مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شخصیات کون سی تھیں جن کا ڈیٹا وہ لیتے رہے ہیں، ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے مزید کہا کہ صحافی کی ڈیوائسز فرانزک لیب میں بھجوا دی گئی ہیں جن کا فرانزک کرانا ہے، لیکن شاہد اسلم لیپ ٹاپ، موبائل کاپاس ورڈ دینے میں تعاون نہیں کر رہے، کیس کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے لیپ ٹاپ اورموبائل فرانزک کے لئے بھیج دیا ہے، اب ہم اس کا پاس ورڈ بریک کریں گے تاکہ الزام کے حق میں ثبوت حاصل کیا جا سکے۔
دوسری جانب ملزم کے وکیل صفائی نے کہا کہ شاہداسلم کے صحافی ہونے کی وجہ سے ان کا رابطہ ایف بی ار کے ملازمین سے ہو سکتا ہے، لیکن ایف آئی اے نے اپنا یہ الزام ثابت کرنا ہے کہ شاہد اسلم نے رشوت دے کر کوئی ٹیکس تفصیلات حاصل کیں۔ وکیل نے موقف بھی اختیار کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کبھی نہیں کہا کہ وہ اس وقوعہ کے متاثرہ فریق ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کا ٹیکس ڈیٹا لیک ہونے کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تب تو ایف آئی اے سوئی رہی اور کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کا ڈیٹا کیسے لیک ہوا اور کس طرح عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
دوسری جانب سینئر صحافی جاوید چوہدری سے گفتگو میں جنرل باجوہ نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایف بی آر کے اہلکاروں نے 20 لاکھ روپے لے کر ان سمیت 50 لوگوں کا ڈیٹا لیک کیا اور صابر مٹھو کے اثاثے ان کے کھاتے میں ڈال کر انھیں بدنام کیا۔ خیال رہے کہ آرمی چیف کے خاندان کے مبینہ ٹیکس ریکارڈ کے حوالے سے جاری فیکٹ فوکس کی رپورٹ کے دعوئوں کے مطابق پاکستان کے اندر اور باہر آرمی چیف کے معلوم اثاثوں اور کاروبار کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 12 ارب 70 کروڑ روپے ہے۔ ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں 2013 سے 2021 تک جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کی ویلتھ اسٹیٹمنٹس بھی شیئر کیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ جنرل قمر باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد کے اثاثے جو 2016 میں صفر تھے، وہ بعد کے 6 برسوں میں 12 ارب 20 کروڑ روپے ہو گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس رقم میں فوج کی جانب سے ان کے خاوند کو ملنے والے رہائشی پلاٹ، کمرشل پلاٹ اور مکانات شامل نہیں ہیں اور 12 ارب کے اثاثے ان کے علاوہ ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اکتوبر 2018 میں جنرل باجوہ کی بہو ماہ نور صابر کے ڈیکلیئرڈ اثاثوں کی کُل مالیت صفر تھی اور ان کی شادی سے صرف ایک ہفتہ قبل ہی یعنی 2 نومبر 2018 کو ان کے اثاثے ایک ارب 27 کروڑ روپے سے زائد ہوگئے۔ اسی طرح فیکٹ فوکس نے دعویٰ کیا کہ ماہ نور کی بہن ہمنا نصیر کے اثاثے 2016 میں صفر تھے جو 2017 تک ’اربوں‘ میں پہنچ گئے۔ رپورٹ میں مزید الزام لگایا گیا کہ ماہ نور کی 3 بہنوں میں سب سے چھوٹی نابالغ بہن کے ٹیکس ریٹرن پہلی بار 2018 میں جمع کرائے گئے جب کہ ابھی وہ صرف 8 سال کی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسکے 2017 کے ریٹرن ظاہر کرتے ہیں کہ اسے پانچ عدد جائیدادیں بطور تحفہ دی گئیں، رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ آرمی چیف کے دوست اور ان کے صاحبزادے کے سسر صابر حمید مٹھو کے ٹیکس گوشوارے 2013 میں 10 لاکھ سے بھی کم تھے، تاہم آنے والے برسوں میں وہ بھی ارب پتی ہوگئے اور لاہور کے طاقتور بزنس ٹائیکون بن گئے اور بیرون ملک اثاثے منتقل کرنے شروع کردیئے۔