جے یو آئی نے خواتین کو سیاحتی مقامات پر جانے سے روک دیا


جمعیت علماء اسلام ف کے خیبرپختونخواہ چیپٹر نے خواتین کے سیاحتی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ضلع باجوڑ میں منعقد ہونے والے ایک جرگہ میں جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما اور جمعیت علماء اسلام ف کے منتخب تحصیل ناظم نے کیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں جمعیت علماء اسلام کے مختلف رہنما اور تحصیل ناظم یہ اعلان کرتے سنے جا سکتے ہیں کہ آئندہ خواتین کو سیاحتی مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گئی۔

جرگے میں شریک باجوڑ کے تحصیل ناظم حاجی سید بادشاہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انتظامیہ جرگے کے فیصلے کے مطابق فی الفور پابندی نافذ نہیں کرتی تو ہم خود آگے بڑھ کر اس پابندی کو نافذ کریں گے اور علاقے میں کسی قسم کی فخاشی اور عریانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بی بی سی اردو کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر باجوڑ حمزہ ظہور نے کہا ہے کہ حکومت خواتین پر کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی مزاحمت کرے گی۔ انھوں نے بتایا کہ کسی بھی فرد واحد یا تنظیم کو خواتین کی آزادی سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکناں کا کہنا ہے کہ ہر چیز کو فخاشی اور عریانی قرار دینا انصاف نہیں۔ ملک میں قوانین موجود ہیں ان پر عمل در آمد ہونا چاہیے۔ ویسے بھی ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہونی چاہیے۔ باجوڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی احسان اللہ احسان کے مطابق خواتین کے سیاحتی مقامات پر جانے کے خلاف فتوی ایک جرگے نے دیا جو کہ جعمیت علماء اسلام ف کے زیر انتظام منعقد کیا گیا تھا۔ اس جرگے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔جرگے میں موجود قائدین جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما مولانا عبدالرشید اور منتخب تحصیل ناظم حاجی سید بادشاہ نے باجوڑ کے سیاحتی مقامات میں خواتین کی سیاحت پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ مہمند ڈیم کے ساتھ قائم کردہ پارک میں عید کی تعطیلات کے دوران سر عام ناچ گانے کے پروگرام منعقد ہوئے جو ہماری قبائیلی روایات کے برخلاف ہیں اور ان کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انتظامیہ اس پر خود پابندی لگائے ورنہ ہم خود آگے بڑھ کر اقدام کریں گے۔

احسان اللہ کے مطابق اس موقع پر جرگے میں موجود تمام لوگوں نے مولانا عبدالرشید اور حاجی سید بادشاہ کی تائید کی تھی۔
حاجی سید بادشاہ نے کہا کہ ہم سیاحت کے خلاف نہیں ہے مگر اسے اصول و ضوابط کے تحت لانا چاہتے ہیں۔ حاجی سید بادشاہ کا کہنا تھا کہ عید کی تعطیلات کے دوران ڈیم کے ساتھ منسلک پارک میں قبائیلی روایات کے برخلاف فخاشی اور عریانی کا بازار گرم کیا گیا تھا۔ وہاں پر کھلے عام ڈانس ہوتے رہے تھے۔ جو ہم قبائیلیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں جس وجہ سے ہم نے خواتین کے سیاحتی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کی ہے۔ حاجی سید بادشاہ کہتے ہیں کہ ہمارا مطالبہ بڑا واضح ہے کہ کوئی بھی خاتون اپنے محرم خاوند، بھائی، والد کے علاوہ تفریحی مقامات پر نہیں جاسکتی ہے۔ ایسا کرنے پر سخت پابندی ہوگئی۔ انہون نے کہا کہ اگر انتظامیہ یہ پابندی نافذ نہیں کرے گی تو ہم خود آگے بڑھ کر اسے نافذ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کے لیے الگ سے پارک ہوں۔ الگ سے ایسے مقامات ہوں جہاں پر وہ تفریح کرسکیں۔ جہاں پر مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔

دوسری جانب باجوڑ سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن افسانہ کا کہنا ہے کہ آج خواتین کی سیاحت پر پابندی عائد کی جارہی ہے اور کل ان کے تعلیمی اداروں میں جانے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گئی۔ افسانہ کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال نہ تو اچھی ہے اور نہ ہی قابل قبول ہے۔ ملک میں قوانین موجود ہیں جن پر عمل ہونا چاہیے۔ ہر کسی کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اٹھے اور کسی بھی سرگرمی کو فخاشی اور عریانی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دے۔ افسانہ کا کہنا تھا کہ ایسی سرگرمیوں پر پابندی کا مطلب قوم کو پیچھے کی طرف دکھیلنا ہے۔

Back to top button