حکومتی قرضہ سکیموں کو سیاسی رشوت بنا دیا گیا


حکومت کی جانب سے غریبوں، بزرگوں اور نوجوانوں کے لیے شروع کی جانے والی وظیفہ اور قرضہ سکیمیں اب ایک سیاسی رشوت کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں اور مستحق افراد کی بجائے زیادہ تر غیر مستحق افراد سیاسی تعلقات کی بنیاد پر وظیفے اور قرضے حاصل کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد جو سب سے واضح منصوبے شروع کیے ان میں نوجوانوں کو قرضہ دینا اور غریب افراد کو ماہانہ وظیفہ دینا شامل ہے، لیکن اس وظیفے کو بھی کئی حصوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ سکیمیں مختلف صوبوں میں مختلف ناموں اور طریقوں سے شروع کی گئیں۔ مثال کے طور پر پنجاب میں 65 سال سے زائد عمرکے افراد کے لیے ’باہمت بزرگ‘ نامی ایک انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت بزرگ افراد کو ماہانہ دوہزار روپے وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔جب یہ پروگرام شروع کیا گیا تو اس کے لیے ساڑھے تین ارب روپے مختص کیے گئے۔ مالی سال 2021 کے لیے بجٹ میں اس پروگرام کے لیے مختص رقم میں ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کٹوتی کی گئی ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی بجٹ دستاویزات میں اب یہ رقم سوا دو ارب روپے ہے۔
حکومت پر تنقید اس بات کی ہو رہی ہے کہ جتنے بھی پروگرام شروع کیے گئے وہ ان دعوؤں کے برعکس ہیں جو میڈیا کے سامنے کیے جا رہے ہیں۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم سمجھتے ہیں کہ حکومتی سکیمیں ایک سیاسی کھیل کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کے بقول ’اگر آپ دل پہ ہاتھ رکھ کر دیکھیں تو ان میں سے کوئی ایسی سکیم نہیں جو پہلے سے موجود نہ ہو، یا پچھلی حکومتوں نے شروع نہ کی ہو۔ سب سے پہلے طلبا و طالبات کو لیپ ٹاپس دیے گئے پچھلی حکومت میں، اور میں اس کو سیدھی سیدھی سیاسی رشوت سمجھتا ہوں ان سکیموں کا معاشی منصوبہ بندی سے دور دور کا تعلق نہیں۔ اربوں روپے کے لیپ ٹاپس اب کہاں ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک لیپ ٹاپ کی زیادہ سے زیادہ عمر کتنی ہوتی ہے؟ موجود حکومت بھی یہی کر رہی ہے اور ایک دلچسپ بات یہ کی ہے کہ عام بینکوں کو بھی قرضہ دینے کا کہہ دیا ہے اور قرضہ بھی ان نوجوانوں کو جن کے پاس ہنر کا حکومت کے پاس کوئی ڈیٹا نہیں۔ جس ملک میں کسان زرعی قرضہ لے کر بیٹی کی شادی کرتا ہے، وہاں اور قرضے دینے کی سکیمیں لانا محض ایک دکھاوا ہے۔ ہاں البتہ غربت کے خاتمے کے لیے انکم سپورٹ جیسے پروگرام جیسا کہ اقوام متحدہ کی معاونت سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر شروع کیا گیا یہ ایک دوسری صورت حال ہے۔‘
ڈاکٹر قیس کہتے ہیں کہ ’انکم سپورٹ پروگراموں سے بجٹ کٹ کر کے لامحالہ قرضوں اور دوسرے غیرترقیاتی کاموں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے جب سیاسی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں کاروباری ذہن سازی نچلی سطح پر ہے ہی نہیں، تو وہاں خبریں چھپوانے کے بعد بجٹ نکال لینا ایک عام سی بات ہے۔‘
کچھ ایسا ہی معاملہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے شروع کی جانے والی کامیاب جوان سکیم کا ہے اور یہ تاثر عام ہے کہ صرف انہی نوجوانوں کو یہ قرضے دیے جارہے ہیں جن کا تعلق یا تو تحریک انصاف سے ہے یا پھر ٹائیگر فورس سے۔ یعنی موجودہ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی ہونے والی رقم کو اپنے سیاسی مفادات کے فروغ کے لیے دونوں ہاتھوں سے لٹا رہی ہے۔
حکومتی افراد سے تعلقات نہ رکھنے والے یا تحریک انصاف سے غیر متعلق نوجوانوں کے لیے بینک سے قرض کا حصول کس قدر مشکل ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ایک ضرورت مند پڑھی لکھی خاتون کی گفتگو سے ہوتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے قرض حاصل کرنے کے لیے مختلف بینکوں سے رجوع کیا۔ کسی بینک سے بھی واضح انداز میں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ قرض فراہم کرنے سے متعلق بینک کی اصل پالیسی آخر ہے کیا، جیسا کہ شرح سود کیا ہو گی اور قرض واپس کرنے کی اقساط کیسی ہوں گی اور اُن پر چارجز کتنے ہوں گے وغیرہ۔‘
اُن کا دعویٰ ہے کہ ہر بینک والے نے ان سے کسی قابل بھروسہ حکومتی اور ریفرنس کا تقاضا کیا۔ لہازا ان حالات میں بیشتر تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے قرض کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ اُن کے بقول جب وہ ایک نجی بینک قرضہ حاصل کرنے کے لیے گئیں تو انھیں ایک سکیم کی بہت سی خوبیاں بتا کر دستخط لے لیے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ ’آپ نے بینک کے نمائندے کی جانب سے آنے والی تصدیقی کال میں ہر سوال کا جواب ہاں میں دینا ہے، ورنہ قرض کے حصول میں وقت لگ جائے گا اور مسائل پیدا ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس دوران آپ کسی قابل بھروسہ حکومتی ریفرنس کا بندوبست بھی کریں’۔
خاتون کے بقول قرض کی درست تفصیلات آپ کو درحقیقت اسی تصدیقی کال سے پتا چلتی ہیں کیونکہ ’کوالٹی کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے یہ کال ریکارڈ کی جاتی ہے‘ اور بعد میں ضرورت پڑنے پر اسے بطور قابل قبول شواہد استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھیں اسی کال سے معلوم ہوا کہ ’جس سکیم کے تحت مجھے قرضہ دیا جائے گا اس میں شرح سود دراصل دگنی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے انھیں ایسا قرضہ لینا پڑا جس میں سود کی شرح زیادہ تھی۔
دوسری جانب پنجاب حکومت ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتی۔ ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ کہتی ہیں کہ ’یہ بالکل بھی سیاسی رشوت نہیں ہے، بلکہ تحریک انصاف کے ویژن کے عین مطابق ہے کہ عام آدمی کو اس کی دہلیز پر سکھ مہیا کیا جائے۔ ہم نے باہمت بزرگ پروگرام میں میرے علم کے مطابق کوئی کٹوتی نہیں کی۔‘

Back to top button