حکومت کے دو جرائم جن پر وہ غداری کی مرتکب ہوئی

وزیراعظم عمران خان کے ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ انکی حکومت کس منہ کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین پر غداری کے مقدمات بنا رہی ہے جبکہ سقوط کشمیر کرواکر اور پشاور آرمی پبلک اسکول کے سینکڑوں معصوم بچوں کے قاتل کو بھگوا کر وہ غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ کپتان حکومت کے ناقدین نے نواز شریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں پر غداری کا مقدمہ درج کرنے کے خلاف سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ دراصل اپوزیشن نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت غداری کے مرتکب ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ کپتان حکومت پہلی مرتبہ تب غداری کی مرتکب ہوئی جب بھارت نے اسکی ناک کے نیچے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اس پر قبضہ کرلیا اور یہ خاموش رہی۔ دوسری مرتبہ کپتان حکومت نے تب غداری کی جب اسنے پشاور آرمی پبلک اسکول کے سینکڑوں معصوم بچوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو سرعام تختہ دار پر چڑھانے کی بجائے پشاور میں اپنا مہمان بنایا جہاں سے وہ ایک اوبر ٹیکسی میں بیٹھ کر خاندان سمیت فرار ہو گیا۔
حکومتی ناقدین کا کہنا ہے کہ ان دو جرائم کی پاداش میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ پر غداری کے مقدمات درج ہونے چاہئیں کیونکہ اگر اپوزیشن رہنما صرف حکومت پر تنقید کرنے سے غدار ہو سکتے ہیں تو عملی طور پر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے حکمرانوں کے خلاف غداری کے مقدمات کیوں درج نہیں ہو سکتے؟
سوشل میڈیا پر حکومتیں ناقدین کا کہنا ہے کہ جمہوریت بند گلی سے راستے نکالتی ہے یہ مگر ’پہلی بار‘ ہو رہا ہے کہ ایک نام نہاد جمہوری حکومت پاکستانی سماج کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت محض شعلہ بیانی اور افتاد طبع کا نام نہیں، حکمت بھی کار ریاست کا اہم جزو ہے۔ حکومت لوگوں کو جوڑتی ہے اور ساتھ لے کر چلتی ہے۔ وہ اپنے ناقدین کو اقتدار کے نشے میں مدہوش ہو کر بند گلی کی نکڑ پر قائم کردہ غدار سازی کی فیکٹری میں بند کرنے کی کوشش نہیں کرتی جیسا کہ کپتان حکومت مسلسل کیے چلے جا رہی ہے۔
کپتان حکومت کے سوشل میڈیا ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ حکومتیں تو ناراض اور متحارب گروہوں کو بھی قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرتی ہیں، یہ کیسی دانائی ہے کہ اہل سیاست پر بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں؟ کئی سوشل میڈیا صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اب تک عمران خان کے خلاف پشاور آرمی پبلک اسکول کے سینکڑوں بچوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو فرار کروانے کے جرم میں غداری کا کیس درج کیوں نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہونا وزیراعظم کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ عمران کے ناقدین کہتے ہیں کہ طالبان کے بارے میں عمران خان کا موقف ہمارے سامنے ہے۔ وہ آخری لمحے تک اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قاتل طالبان کے ساتھ صلح کے لئے مذاکرات کئے جائیں۔ حکومتی ناقدین کا کہنا ہے کہ قاتل احسان اللہ احسان کو فرار کروا کر کپتان حکومت نے انتہا پسند طالبان کے دلوں میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی لہذا ان پر غداری کا کیس درج کیا جائے۔
کپتان حکومت کے سوشل میڈیا ناقدین کا یہ بھی الزام ہے کہ اپنے ملک کے سیاسی رہنماؤں پر بھارت کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے والے وزیراعظم عمران خان نے خود ایک عالمی ایجنڈے کے تحت کشمیر کا سودا کر دیا اور بھارت کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا لے۔ لہذا اس الزام پر بھی آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی بجائے پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
دوسری طرف سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے پر زور لگانے کی بجائے پاکستان کے معاملات اور عوام کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک پارلیمانی نظام کا یہ حسن ہے کہ اختلافی آوازیں اٹھتی رہیں اور ان میں شدت بھی آ جائے تو پارلیمانی جمہوریت میں اسے بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے۔ تعزیرات پاکستان میں بلا شبہ یہ دفعات پہلے سے موجود ہیں کہ حکومت پر تنقید کرنے والے حضرات کو Sedition کے جرم میں عبرت کا نشان بنا دیا جائے لیکن پارلیمانی جمہوریت کی الف ب سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ آخری حربے کے طور پر کی گئی قانون سازی ہے جس کا بنیادی کام ڈیٹرنس کا ہے۔ اس سے پہلے اور بہت سے مقامات آتے ہیں۔
ایسے نہیں ہوتا کہ شروعات ہی اس انتہا سے کی جائیں اور جن کی عمر اس ملک کے آئین سے وفادای کا حلف اٹھاتے اور پارلیمانی سیاست کرتے گزری ہو انہیں کھڑے کھڑے باغی، ملک دشمن اور غدار قرار دے کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔
ملک دشمن غداروں کی اس مبینہ فہرست پر ذرا نظر تو ڈالیے۔ سابق سپیکر، وزرا اور وزرائے اعظم سے لے کر سابق جرنیل اور گورنرز تک سب اس کی زد میں آئے پڑے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کیا عمران اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین واقعی انڈیا کے ایجنٹ ہیں اور ان کے خلاف ’پاکستان کے خلاف جنگ‘ کرنے یعنی Waging war against Pakistan کے الزام پر مجرم قرار دیا جا سکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ اہل سیاست کا موقف جتنا بھی سخت اور نامناسب ہو اس کا ایک پس منظر اور شان نزول ہوتی ہے۔ اس موقف کو اس پس منظر سے جدا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اہل سیاست معاشرے کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں اور ان کی آواز بلند ہوتے رہنا نہ صرف معاشرے میں زندگی کے آثار کی علامت ہے بلکہ یہ سماج کو گھٹن سے بھی بچاتی ہے۔ انسانی تجربات بتاتے ہیں سماج میں گھٹن بڑھ جائے تو حادثے کو جنم دیتی ہے۔ سیاست معاشرے کے فکری اور نفسیاتی بہاؤ کا نام ہے۔ اس میں مد اور جزر دونوں کا امکان موجود ہے لیکن اس بہاؤ کو اس کی خوبیوں خامیوں سمیت آخری درجے تک برداشت کرنا چاہیے۔ الا یہ کہ، کوئی اور راستہ باقی نہ رہے اور حجت تمام ہو جائے۔