حکومت کے لئے PTI اراکین کے استعفے روکنا کیوں ضروری ہے؟


عمران خان کے حکم پر قومی اسمبلی سے استعفے دینے والے کئی اراکین اسمبلی کی جانب سے نئے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے رابطے کیے جانے کے بعد استعفوں کو پراسیس کرنے کا عمل روک دیا گیا ہے اور فردا ًفرداً تمام اراکین اسمبلی کو بلا کر انکی تصدیق کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ پی ٹی آئی میں پڑنے والی دراڑ کو مزید وسیع کیا جا سکے اور صدر علوی کے مواخذے کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مستعفی اراکین کو قومی اسمبلی میں واپس لانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی کیونکہ انکے بغیر موجودہ پارلیمنٹ نا مکمل ہے جس سے نئے صدر کے مواخذے اور انتخاب کا عمل بھی ممکن نہیں رہا۔
یاد رہے کہ آئین کے تحت صدر کے مواخذے کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کا ہونا ضروری ہے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ 123 پی ٹی آئی اراکین کے استعفوں کے بعد جو اراکین باقی بچے ہیں ان کی دو تہائی اکثریت سے صدر کا مواخذہ کرلیا جائے۔ صدر کے مواخذے کے لئے نئی حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے کل 442 اراکین میں سے 296 کے ووٹ چاہئیں، لیکن تحریک انصاف کے 20سے زائد اراکین اسمبلی کے ووٹ ملا بھی لیے جائیں تب بھی صدر کا مواخذہ ممکن نہیں، حکومت کو صدر عارف علوی سے جان چھڑانے کے لئے اب بھی کم از کم 40 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا ہوگی، لہٰذا استعفے روکنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
اسی لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل آئندہ چند روز میں انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپس میں بلا کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پرویز اشرف کا یہ فیصلہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 درجن ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے اپنا مؤقف واضح کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی درخواست کے بعد سامنے آیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے ذرائع نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے جمع کرائے گئے اکثر استعفے ہاتھ سے نہیں لکھے ہوئے اور پی ٹی آئی کے لیٹر ہیڈ پر ایک جیسا متن چھپا ہوا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اسمبلی سیکرٹیریٹ کو بھی کچھ ارکان کے دستخطوں پر شک تھا کیونکہ یہ اسمبلی کے رول پر موجود دستخطوں سے میل نہیں کھا رہے تھے۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے کم از کم 25 ایم این ایز نے راجہ پرویز اشرف سے الگ ملاقات کی درخواست کی تھی تاکہ وہ وضاحت کر سکیں کہ کن حالات میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔
یاد رہے کہ اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کا فیصلہ عمران کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا اور اس کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے الیکشن سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔
دوسری جانب سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، جو اس وقت قائم مقام سپیکر کے طور پر کام کر رہے تھے، نے فوری طور پر استعفے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔ 14 اپریل کو پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے ذریعے قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ پارٹی کے 123 ارکان قومی اسمبلی نے اسپیکر کو اپنی نشستوں سے استعفیٰ ہاتھ سے لکھ کر دے دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سیکرٹری طاہر حسین کے دستخط شدہ نوٹیفکیشن میں اعلان کیا گیا تھا کہ استعفے جمع کرانے کے بعد ان کی نشستیں آئین کے آرٹیکل 64 (1) کے تحت خالی ہو گئی ہیں جس کا اطلاق 11 اپریل سے ہو گا، تاہم قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے حکام نے اس پیشرفت پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ سیکرٹری کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو روک دیا گیا تھا کیونکہ یہ متنازع انداز میں جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نو منتخب اسپیکر نے پہلے ہی استعفوں کو ڈی سیل کرنے کا حکم دے دیا تھا اسلئے سابقہ نوٹیفکیشن بارے یہی سمجھا جائے کہ یہ کبھی جاری نہیں ہوا۔ اسمبلی عہدیدار نے واضح کیا کہ چونکہ نوٹیفکیشن ای سی پی کو ارسال نہیں کیا گیا اس لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسے اسمبلی سیکریٹریٹ کا اندرونی معاملہ سمجھا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کی صورت میں رکن پارلیمنٹ کی نااہلی کا معاملہ سپریم کورٹ میں تاحال زیر بحث ہے اور ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔

Back to top button