شہباز حکومت کب تک فوج کے شانوں پر سوار ہو کر بچی رہے گی ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جس طرح ایک زمانے میں عمران خان آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے شانوں پر سوار ہو کر حکومت کیا کرتے تھے، بالکل ویسے ہی آج نون لیگ حکومت کر رہی ہے۔ لیکن مت بھولیے کہ باجوہ دور میں وہ وقت بھی آ گیا تھا جب جنرل باجوہ کو یہ سوچنا پڑا کہ انصافی حکومت کھلونوں سے ہی کھیلتی رہے گی یا کوئی بہتری بھی لائے گی۔ اور اسی سوچ کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ختم ہونے کے بعد خان صاحب کو بھی گھر جانا پڑ گیا تھا۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آج جس نونی حکومت کو اسٹیبلشمینٹ نے بچوں کی طرح اپنے شانوں پر بٹھا رکھا ہے اسے جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا، فوج بھی چاہے گی کہ بچہ شانوں سے اتر کر خود چلنے پھرنے بلکہ دوڑنے کے قابل ہو جائے۔ اگر نونی حکومت نے ایسا نہ کیا تو ویسا ہی ہو گا جیسا کہ والدین کرتے ہیں۔ والدین بچے سے پیار ہونے کے باوجود بڑا ہونے کے بعد اسے کندھوں پر نہیں بٹھاتے اور چلنے پر مجبور کرتے ہی۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا اور اگر نونی حکومت نے پی ٹی آئی کے کمزور ہونے کے بعد بھی کسی سہارے کے بغیر خود چلنے کی کوشش نہ کی تو فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی مزید اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں میرا اندازہ ہے کہ فوج اور نون لیگی حکومت کو تحریک انصاف کی سخت مخالفت نے ابھی تک اکٹھا رکھا ہوا ہے، لیکن جب پی ٹی آئی کمزور ہو گئی تب فوج اور نونی حکومت میں بھی فاصلے پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے ۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میرا پاکستان اب تضاددستان بن چکا ہے جس کے رنگ نرالے ہیں ۔یہ ایک جادو نگری بھی ہے جس میں جادو گر اپنے کرتب دکھا کر اور منتر پڑھ کر سب سے آگے نکل جاتے ہیں جبکہ جادو نہ جاننے والے پچھلی صفوں میں کھڑے رہ جاتے ہیں۔ جادو میں بھی یہ طاقت ہے کہ منٹوں میں حالات بدل جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے، یک لخت نہ صرف منظر بدل جاتا ہے، بلکہ انجام بھی سرے سے تبدیل ہو جاتا ہے۔

چند دن پہلے جادو گر گنڈا پور نے کچھ ایسا منتر پڑھا کہ سب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ وہ اُڑن کھٹولے میں بیٹھ کر زلفیں لہراتا ہوا اسلام آباد پہنچا، وہاں سے پختونخوا ہاؤس گیا اور پھر اچانک غائب ہونے کے بعد اڑتے قالین پر بیٹھ کر واپس پشاور پہنچ گیا۔ نہ کوئی جادوئی گنڈاپور کو دیکھ پایا اور نہ ہی پکڑ پایا۔

اسمبلی پہنچ کر اس نے پھر سے اسلام آباد پر دھاوے کا اعلان کر دیا۔ ابھی ان جادوئی بیانات کا جھاگ بھی نہیں بیٹھا تھا کہ پھر سے جادو کی چھڑی نے کمال دکھا دیا، کل تک پی ٹی آئی اور ریاست کے درمیان آگ اور خون کا کھیل جاری تھا مگر اگلے ہی دن شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے تھے۔ محمودوایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ وزیر اعلی گنڈا پور، گورنر فیصل کنڈی اور محبوب ِریاست محسن نقوی سب اکٹھے بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہم جیسے فانی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جادو کی چھڑی نے یہ کمال کیسے دکھا دیا، آگ کی بجائے پھول کیونکر کھل گئے، لڑائی کی بجائے عہدو پیماں کیسے ہو گئے ،کل تک دست وگریبان فریق بغلگیر کیسے ہو گئے ؟ ہمیں یہ تو علم ہے کہ یہ صرف اور صرف جادو کا کمال ہے مگر جادو کا منتر کیا ہے؟ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر جادو کی چھڑی راتوں رات یہ کرشمہ دکھا سکتی ہے تو پھر ریاست کو اسی جادو کے ذریعے مستقل بنیادوں پر پھولوں کی سیج کیوں نہیں بنا دیا جاتا؟ آخر قوم کو کانٹوں پر چلانا کیوں ضروری ہے، اگر آن کی آن میں جادو کی چھڑی یا کوئی خفیہ منتر کام آ سکتا ہے تو اسے پہلے سے استعمال میں کیوں نہیں لایا جاتا ؟

نواز حکومت کے خاتمے کے بعد مشرف نے تارڑ سے صدارت کیسے چھینی؟

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے دوران نونی حکومت کی قلعی بھی کھل گئی، سوائے وزیر داخلہ محسن نقوی کے، نہ تو کوئی دفاع کرنے والا تھا اور نہ کوئی معاملات دیکھنے والا، یہ درست ہے کہ محسن نقوی کا وزیر اعظم سے مسلسل رابطہ تھا مگر کیا وزیر اعظم ہی اکیلا وفاقی حکومت ہے، باقی سب کہاں تھے؟ وہ بتاتے ہین کہ وزیر داخلہ محسن نقوی سے میری ذاتی دوستی ہے، وہ دل کی بات کم ہی کسی کو بتاتے ہیں، وہ دل وجان سے ریاستی اداروں اور ان کے کردار پر فدا ہیں، مگر یہ گناہ گار ریاستی اداروں کی سیاست میں مداخلت کا سخت مخالف ہے اس لیے سیاسی امور پر ہمارا اکثر اختلاف رہتا ہے، میں اسٹیبلشمنٹ مخالف کوئی تحریر لکھوں یا بولوں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، کئی کئی دن بات چیت بھی بند ہو جاتی ہے، پھر کوئی دوست بیچ میں پڑ کر صلح کرا دیتا ہے اور ہم اپنے اپنے سیاسی اور نظریاتی موقف پر ڈٹے رہنے کے باوجود دوستی برقرار رکھنے پر اتفاق کرتے ہیں۔

حالیہ اسلام آباد مقابلے میں ہمیں دو فریق نظر آئے، ایک گنڈا پور اور دوسرے محسن نقوی، چنانچہ ایسا لگتا تھا کہ اگلا میچ بھی ان دونوں کے مابین ہی پڑے گا، مگر پشاور جرگے میں ان دونوں کے اکٹھے بیٹھ جانے کے بعد سے یہ تاثر ملا کہ آگ اور پانی ایک ہو گئے ہیں، ایسا صرف جادو نگری میں ہی ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے۔

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ ریاست کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہر طرف جادو ہی جادو ہے، تحریک انصاف کے بانی پر اب بھی بشریٰ عرف پنکی پیرنی کا جادو ہی چل رہا ہے، عمران کی بہنیں بھی ان پر اپنا اتنا جادو نہ چلا سکیں جتنا اثر ان پر اپنی اہلیہ کا ہے۔

دوسری جانب پارٹی کے اندر اس وقت سب سے زیادہ جادو گنڈا پور کا چل رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ پشاور جرگہ پر بانی پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہوگا ؟ گنڈا پور اور اسد قیصر، محسن نقوی کے ہمراہ بیٹھے تھے اور پہلے فوجی آمر جنرل ایوب کے نواسے عمر ایوب محسن نقوی کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔

دیکھیں اب عمران خان گنڈا پوری منتر کو تسلیم کرتے ہیں یا عمر ایوبی طلسم کو مانتے ہیں؟

سہیل وڑائج کے بقول محسن نقوی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ فوج اور حکومت کے درمیان مضبوط ترین رابطہ وہی ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی کا حکومت کو گرانے کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن عدالتی راستے سے کئی خطرات کا اندیشہ اب بھی ہے۔

محسن نقوی شروع میں اسلام آباد جاکر گم ہو گئے تھے اور وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کا تحرک پس منظر میں جاتا نظر آرہا تھا، مگر انہوں نے ایک بار پھر باؤنس بیک کیا ہے، البتہ اپنی تمام تر توانائیوں کے باوجود وہ ابھی تک کرکٹ کے میدان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے جہاں ان کا جادو نہیں چل سکا، البتہ اقتدار کی راہداریوں میں ان کا منتر کامیاب ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگلے تین ماہ میں ملکی سیاست کا منظر اور بھی واضح ہو جائے گا، اور کوئی نہ کوئی نئی صف بندی ہو گی۔ اگر تو پی ٹی آئی کمزور ہوئی تو حکومت کے اندر نئی گروپ بندی جنم لے گی اور اگر پی ٹی آئی مضبوط ہی رہی تو پھر اس سے ربط ضبط شروع ہو جائے گا۔

Back to top button