خواہش کے باوجود عمران خان آخری تقریر کیوں نہ کر پائے؟


سینئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان 9 اپریل کی رات ساڑھے دس بجے تک ڈٹے ہوئے آخری بال تک کھیلنے کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن پھر اچانک وہ 180 ڈگری پر مڑ گے۔ اس دوران ایک ہیلی کاپٹر بھی وزیر اعظم ہاؤس پہنچا اور کچھ سرکاری افسران نے عمران کے احکامات پر عملدرآمد سے انکار بھی کردیا کیا۔ پھر سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے بھی کھول دیے گے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ رات ساڑھے دس بجے آخر ہوا کیا تھا؟ کوئی نہیں جانتا شاید موکلات وزیر اعظم کو ساتھ لے گئے ہوں اور جاتے جاتے سب کچھ بدل گئے ہوں؟ جاوید چوہدری کے بقول انہیں بہرحال یہ موکلات کی کارستانی لگتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عمران خان آخری وقت میں قومی اسمبلی بھی جانا چاہتے تھے اور فلور پر کھڑے ہو کر تقریر بھی کرنا چاہتے تھے لیکن موکلات نے انھیں اس سے بھی روک دیا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ہفتہ 9 اپریل کو پوری قوم سارا دن ٹیلی ویژن اسکرینوں سے جڑ کر بیٹھی رہی اور حکومت وقت پر وقت حاصل کرتی رہی۔ 8 اپریل کی رات اطلاع آئی حکومت کل عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائے گی۔ یہ لوگ لمبی لمبی تقریریں کریں گے۔ اپوزیشن کو اشتعال دلائیں گے اور پھر اجلاس اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیں گے۔ یہ لوگ صورت حال کو چند دن مزید اسی طرح کھینچیں گے۔ میں نے یہ اطلاع ملنے کے بعد وزیر اعظم کے ایک معاون سے رابطہ کیا۔ وہ ہنس کر بولا ’’وزیر اعظم کو یقین ہے کہ پہاڑوں سے کمک آئے گی اور بازی پلٹ جائے گی‘‘۔ میرے پاس بھی ہنسنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ بے شک عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ نے یہ فیصلہ کر لیا تھا عمران عزت کے ساتھ اقتدار سے رخصت نہیں ہوگا۔
بہرحال نو اپریل کا دن شروع ہوا اور بار بار ملتوی کیا جاتا رہا۔ حکومت دھواں دار تقریریں کرتی رہی۔ اپوزیشن پورے اطمینان سے یہ رطب ویاسب سنتی رہی اور قوم بے زاری کے عالم میں ٹیلی ویژن اسکرینیں دیکھتی رہی۔ یہ سلسلہ رات آٹھ بجے تک چلتا رہا۔ پھر اچانک خبر آئی وزیراعظم نے کابینہ کی ایمرجنسی میٹنگ بلا لی ہے۔ خبر آنے کی دیر تھی‘ پوری میڈیا انڈسٹری میں سنسنی پھیل گئی اور صحافی سیٹ بیلٹ باندھ کر کپتان کے آخری سرپرائز کا انتظار کرنے لگے۔ ہمارا خیال تھا عمران وہ والا نوٹی فکیشن جاری کر دے گا جس کو کارڈ بنا کر حکومت اب تک کھیلتی رہی ہے۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اس دوران وزیراعظم نے اپنی پسند کے صحافیوں کو پی ایم ہاؤس بلا لیا۔ ساڑھے نو بجے کابینہ کا اجلاس ہوا اور وزراء کی اکثریت قومی اسمبلی اور اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئی۔ میڈیا پرسنز وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو انھیں وزیر اعظم کے رہائشی علاقے کے پیچھے لان میں لے جایا گیا۔ عمران نے صحافیوں سے بات چیت شروع کر دی۔ وہ حسب معمول فل اسپرٹ میں تھے۔ ان کا کہنا تھا‘ ہم نے امریکا کے خط کو ’’پارشلی ڈی کلاسیفائی‘‘ کر دیا ہے‘ صحافیوں نے پوچھا ’’اس کا کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ وزیراعظم نے جواب دیا‘ ہم یہ خط چیئرمین سینیٹ‘ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوا رہے ہیں تاکہ یہ ریکارڈ کا حصہ بن جائے اور مستقبل میں کوئی اسے ٹمپرڈ نہ کر سکے‘ صحافیوں نے پوچھا ’’آپ اب کرنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وزیراعظم کا جواب تھا ’’سپریم کورٹ نے اجلاس بلانے کا حکم دیا تھا‘ ہم نے اجلاس بلا لیا‘ اسپیکر اب اجلاس منسوخ نہیں کر سکتا لیکن یہ اسے ملتوی کر سکتا ہے۔
عمران نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے‘ میں نے اتوار کی رات احتجاج کی کال دے دی ہے‘ ہمیں عوام کی طرف سے شان دار ریسپانس مل رہا ہے‘ کل رات جب پورا ملک باہر نکلے گا تو صورت حال بدل جائے گی‘‘۔ ایک صحافی نے کہا ’’سپریم کورٹ نے آپ کی نظرثانی درخواست قبول نہیں کی‘ آپ کے پاس اب کوئی قانونی آپشن نہیں بچا‘‘۔ اس پر وزیر اعظم نے حیرت سے پوچھا ’’کیا سپریم کورٹ ہماری نظرثانی درخواست نہیں سن رہی؟‘‘ تب صحافیوں کو محسوس ہوا کہ عمران کو اس خبر سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ عمران کی گفتگو سن کر صحافیوں کا متفقہ خیال تھا کہ حکومت عدم اعتماد پر آج ووٹنگ نہیں کرائے گی اور یہ گند چند دن مزید جاری رہے گا، لہٰذا یوں محسوس ہوتا تھا گیم ابھی عمران کے ہاتھ میں ہے۔ وہ بار بار یہ بھی کہہ رہے تھے کہ میں ہار نہیں مانتا، میں آخری گیند تک لڑوں گا۔
لیکن جاوید چوہدری کے بقول اس صورت حال میں پہلی تبدیلی آئی تب آئی جب وزیر اعظم کے ایک افسر نے ان سے پی ایم ہاؤس کے اندر چلنے کی درخواست کی۔ عمران نے جواب دیا ’’میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں‘‘، افسر چلا گیا لیکن دس منٹ بعد دوبارہ آ گیا اور عمران کو ایک بار پھر پیغام دیا گیا۔ اس مرتبہ وہ اٹھ گئے، صحافیوں سے کھڑے کھڑے چند باتیں کیں اور پھر اندر چلے گئے۔ وزراء بھی ان کے ساتھ ہاؤس کے اندر آ گئے‘ وزیراعظم اس دوران اپنے آفس میں تھے جب کہ وزراء کوریڈورز میں چہل قدمی کر رہے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے۔ اس دوران صحافیوں نے عمران کے ساتھ اپنی گفتگو پر مبنی بیپرز دینا شروع کر دئیے۔ میڈیا پرسنز میں سے ایک صحافی ساڑھے دس بجے جب وزیراعظم ہاؤس کے اندر گیا تو اس نے دیکھا کہ تمام وزراء غائب ہیں اور وزیر اعظم ہاؤس بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ وہ مختلف کمروں میں گیا، دوتین کوریڈورز کا چکر لگایا لیکن قہقہے لگانے اور ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارنے والے تمام لوگ غائب ہو چکے تھے۔ وہ گھبرا گیا اور وزیراعظم ہاؤس سے باہر آ گیا تاہم اس نے اس دوران پرویز خٹک اور اسپیکر اسد قیصر کو پی ایم ہاؤس کی بلڈنگ میں داخل ہوتے دیکھا۔
بقول جاوید چوہدری جب میڈیا پرسنز واپس آئے تو صورت حال یکسر بدل چکی تھی۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کھل چکی تھیں۔ ریڈ زون میں کمانڈوز تعینات تھے۔ جیل کی گاڑی اور ایمبولینس بھی آ چکی تھی اور ٹیلی ویژن اسکرینیں بھی شعلے اگل رہی تھیں۔ یہ لوگ پریشان ہو گئے۔ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم آدھ گھنٹہ پہلے تک فل اسپرٹ میں تھے اور کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی اندیشہ نہیں تھا جب کہ باہر کی صورت حال بالکل مختلف تھی چناں چہ یہ اپنے ساتھیوں کو سمجھانے لگے کہ ’’آپ کیا بے وقوفی کر رہے ہیں؟ آج رات ووٹنگ نہیں ہوگی۔ وزیراعظم اب بھی گیند ہاتھ میں لے کر اسٹیڈیم میں کھڑا ہے۔ ٹی وی سکرینز پر بیٹھے تجزیہ کار بھی پریشان ہو گئے کیوں کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا کھلنا، ریڈ الرٹ جاری ہونا، جیل کی گاڑی اور ایمبولینسز کا آ جاتا مختلف کہانی سنا رہی تھیں، بہرحال سوا گیارہ سے ساڑھے گیارہ بجے کے درمیان اسد قیصر اور پرویز خٹک پریشانی کے عالم میں قومی اسمبلی پہنچے اور ملک کے دبنگ اور بے خوف رپورٹر اعزاز علی سید کو گالی دے کر چیمبر میں چلے گئے، لیکن سپیکر کے اسمبلی پہنچنے سے پہلے ان کے استعفے کی خبر آ چکی تھی۔
جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ یہ خبر میڈیا کو کس نے دی یہ تاحال پتا نہیں چل سکا، قصہ مزید مختصر، اسد قیصر نے استعفیٰ دیا، چیئر ایاز صادق کے حوالے کی اور پھر ایوان نے 40 منٹ میں وزیر اعظم کو سابق پی ایم ڈکلیئر کر دیا، یوں ملک کا مشکل ترین دور ختم ہو گیا لیکن یہ دور جاتے جاتے یہ سوال پیچھے چھوڑ گیا کہ رات ساڑھے دس بجے کیا ہوا تھا؟ بی بی سی اردو کے رپورٹر آصف فاروقی نے دعویٰ کیا رات دس بجے ہیلی کاپٹر پر دو افسر آئے اور اس کے بعد صورت حال بدل گئی۔ یہ خبر بھی آئی کہ وزیر اعظم نے رات ساڑھے دس بجے آخری بال کھیلنے سے انکار کر دیا اور اسد قیصر نے وہیں بیٹھے بیٹھے مستعفیٰ ہونے اور چیئر ایاز صادق کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آئی ایس پی آر نے بی بی سی خبر کی تردید کر دی لہٰذا یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔ یہ افواہ بھی گردش کرتی رہی کہ پرویز خٹک نے سیکریٹری ڈیفنس کو سمری تیار کرنے کاحکم دیا تھا اور وہ سمری سمیت غائب ہو گیا تھا لیکن یہ خبر بھی بعدازاں غلط نکلی۔ یہ افواہ بھی گردش کرتی رہی وزیراعظم آخری سرپرائز کے لیے پرتول رہے تھے لیکن پھر انھیں بتایا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کھل چکی ہے، آپ کا آرڈر فوری طور پر منسوخ بھی ہو جائے گا اور آپ اور آپکے ساتھیوں کے خلاف آرٹیکل 6 کا اطلاق بھی ہو جائے گا، لیکن یہ خبر بھی غلط تھی۔ یہ اطلاع بھی آئی کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہیلی کاپٹر آئے بھی تھے اور یہ واپس بھی گئے تھے لیکن بعدازاں پتا چلا یہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر تھا اور یہ شاید واپس بنی گالا گیا تھا۔ یہ اطلاع بھی آئی وزیراعظم نے ایک سینئر افسر کو پی ایم ہاؤس بلایا تھا لیکن وہ نہیں آئے اور یوں بازی پلٹ گئی۔
بقول جاوید، یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ وزیر اعظم جو رست دس بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس مذید چار دن چلانے، امریکی خط پر بحث کرانے اور آخری گیند تک کھیلنے کا دعویٰ کر رہا تھا وہ اچانک ساڑھے دس بجے ایک سو اسی ڈگری پر کیسے مڑ گیا؟
عمران کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ چیزوں کو چھپانے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا اگر انھیں یہ معلوم ہوتا کہ ایک گھنٹے بعد اسد قیصر مستعفی ہو جائیں گے اور ایاز صادق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرا دیں گے تو یہ وہ سچ صحافیوں سے نہ چھپا سکتے۔ آپ خود سوچیے جو شخص سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست قبول نہ ہونے پر چونک گیا تھا یا جو قوم سے خطاب کے دوران امریکا کا نام نہیں چھپا سکا تھا وہ اسد قیصر کے استعفے کی خبر کیسے پوشیدہ رکھ سکتا تھا چناں چہ ان کی پریشانی ان کے چہرے پر آ جاتی، لیکن موصوف دس بجے لان سے وزیراعظم ہاؤس کے اندر جانے تک مطمئن تھے جب ان سے کچھ ملاقاتی ملنے وہاں پہنچے، مگر پھر آدھ گھنٹے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ وفاقی وزراء غائب ہو گئے اور اسد قیصر اور پرویز خٹک پریشانی میں قومی اسمبلی پہنچ گئے جب کہ وزیراعظم شاید بنی گالا چلے گئے۔ ساڑھے دس بجے آخر ہوا کیا تھا؟ کوئی نہیں جانتا شاید موکلات وزیر اعظم کو ساتھ لے گئے ہوں اور جاتے جاتے سب کچھ بدل گئے ہوں؟ مجھے بہرحال یہ موکلات کی کارستانی لگتی ہے۔ عمران آخری وقت میں قومی اسمبلی جانا چاہتے تھے اور فلور پر کھڑے ہو کر تقریر بھی کرنا چاہتے تھے لیکن موکلات نے انھیں اس سے بھی روک دیا لہٰذا ان کے اقتدار کے آخری روز باہر سے آنے والے موکلات اندر کے موکلات پر بھاری پڑ گئے۔

Back to top button