زراعت پر سبسڈی کا خاتمہ اور ٹیکس، غریب کسانوں کی تباہی کا پروانہ
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے 7 ارب روپے ریکارڈ قرض پروگرام کی منظوری کو شہباز حکومت اپنی کامیابی تو قرار دے رہی ہے لیکن اس قرض کے خاطر شعبہ زراعت کے لیے سبسڈی کے خاتمے اور ٹیکسوں نے نفاذ کے وعدوں کو چھوٹے کسانوں کے لیے بربادی کا پروانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ عالمی مالیاتی ادارے نے قرض دیتے ہوئے حکومت پر اجناس کی امدادی قیمتیں اور زرعی شعبے کی سبسڈیز ختم کرنے کی شرط عائد کی ہے، لیکن کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں سبسڈی ختم ہونے سے ان کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہو گا جس سے وہ مکمل طور پر برباد ہو جائیں گے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امدادی قیمت اور سبسڈی کے خاتمے سے پہلے حکومت کو زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ کسان کم سے کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ امدادی قیمت ختم ہونے سے کاشت کار وہی فصلیں اگائیں گے جن سے انہیں منافع ہوگا جس کے باعث ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ یعنی ایم آئی ایف نے پاکستان کو یہ قرض سخت شرائط کے بعد دیا ہے جس کا اعتراف وزیرِ خزانہ محمد اورنگ زیب نے بھی کیا ہے۔ اِن شرائط میں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے شعبے زراعت سے متعلق اہم اقدامات بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے اقتصادی سروے 2023 کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 22 فی صد ہے جب کہ یہ شعبہ 37 فی صد روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اب تک سامنے آنے والی شرائط کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ وہ مالی نظم و ضبط کو مزید سخت کرنے کے لیے اناج کی امدادی قیمتوں متعین کرنے سے گریز کرے اور ان کی فروخت کھلی مارکیٹ میں یقینی بنائی جائے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کے لیے پاکستان کو زرعی شعبے پر بھی ٹیکس عائد کرنا ہوں گے۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف نے خبرادار کیا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پروگرام کے دوران ہی پاکستان کی اضافی گرانٹس کو روک دیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کی فصلوں کی امدادی قیمت اور زرعی شعبے کے لیے دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی شرائط پوری کرنے کے لیے حکومت فصلوں کی امدادی قیمت اور زرعی شعبے کے لیے دی جانے والی سبسڈیز ختم کرتی یے تو اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔ تاہم ماہرینِ معیشت اور کسانوں کے نمائندے ان اثرات کے منفی یا مثبت ہونے کے بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کسانوں کی نمائندہ تنظیم کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر کی رائے میں سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اِس ضمن میں دنیا کیاکر رہی ہے؟ کیا دنیا کے دیگر ممالک امدادی قیمتوں کے بغیر زراعت کا شعبہ چلا رہے ہیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ہر فصل کی امدادی قیمت مقرر کی جاتی ہے جو وہاں کا زراعت سے منسلک کمیشن کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہاں کمیشن خود مختار ہوتا ہے جو فصل کاشت کرنے سے چھ ماہ قبل اُس فصل کی امدادی قیمت مقرر کر دیتا ہے۔ ان کے مطابق حکومتیں اجناس کی امدادی قیمتیں اِس لیے مقرر کرتی ہیں کہ کسانوں کو فائدہ ہو اور اُن کی فصل اچھے داموں فروخت ہو جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ فرض کریں اگر گندم کی امدادی قیمت چار ہزار روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کی جاتی ہے تو یہ اُس کا کم از کم بھاؤ ہو گا یعنی اگر کوئی اِس سے زیادہ پر خریدنا چاہے تو خرید سکتا ہے۔ جس کا فائدہ براہِ راست کسان کو ہوتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کسی بھی علاقے کے لیے اگر کسی فصل کی امدادی قیمت مقرر کرتی ہے تو وہ خود بھی اُسی نرخ پر خریداری کرتی ہے۔ بعد ازاں حکومت عالمی منڈی میں اُسے فصل کو مہنگی بیچتی ہے یا سستی وہ بعد کی بات ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے کسان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ حکومت اُس کی مدد کر رہی ہے اور اُس کی فصل طے کردہ امددادی قیمت سے کم پر فروخت نہیں ہو گی۔
محکمۂ زراعت کے مطابق حکومت عمومی طور پر گندم، کپاس اور گنے کی امدادی قیمتیں مقرر کرتی ہے۔ اجناس کے حوالے سے عالمی منڈی میں قیمتیں کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔ حکومت جب امدادی قیمتیں مقرر کرتی ہے اور عالمی منڈی میں اُسے کم قیمت پر فروخت کرتی ہے تو اُسے نقصان بھی ہوتا ہے۔ تاہم امدادی قیمتیں مقرر کر کے حکومت کسانوں او کاشت کاروں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔
گنڈا پور کی ناہلی نے خیبر پختونخواہ میں گورننس کا جنازہ کیسے نکالا ؟
کسان رہنما خالد کھوکھر کہتے ہیں کہ اگر حکومت آئی ایم کی شرط مان کر فصلوں کی امدادی قیمت مقرر نہیں کرتی تو کسان برباد ہو جائے گا۔ اُس کی فصل کو انڈسٹری والے اپنی قیمت کے حساب سے خریدیں گے۔ امدادی قیمتوں کے خاتمے سے بنیادی اثر یہ پڑے گا کہ کسان وہی فصل اگائیں گے جس سے ان کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں آئى ایم ایف مشن چیف پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم کی رائے میں آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت کسی بھی شعبے میں براہِ راست سبسڈی نہ دے بلکہ بالواسطہ سبسڈی دے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سبسڈی ختم ہونے سے امیر کسان یا کارپوریٹ فارمنگ کرنے والوں کو شاید اتنا نقصان نہ ہو لیکن چھوٹے کسان کے لیے مسائل بڑھ جائیں گے۔ انکے مطابق جب سبسڈی ختم ہو گی تو ایک مرتبہ تو زرعی پیدوار کو دھچکا لگے گا لیکن بعد میں کیا ہو گا؟ اُس بارے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ انکا کہنا تھا کہ ملک میں کسان پہلے ہی بہت سے مسائل اور دباؤ کا شکار ہے۔ خاص طور پر کسان کو فصل کاٹنے کے بعد اُس سے تیار ہونے والی مصنوعات کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ اگر حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر یک دم سبسڈی ختم کرتی ہے تو فصل کی بوائی اور تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں اور مہنگی ہو جائیں گی۔ مثلاً آج کھاد کی بوری کی جو قیمت ہے وہ دگنی ہوجائے گی۔ یعنی سبسڈی حتم ہونے سے ملک میں رہنے والی دیہی آبادی بہت زیادہ متاثر ہو گی اور غریب کسان کا تو بھرکس نکل جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس لیے حکومت سبسڈی ختم کرنے سے پہلے کسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ نئی نئی فصلوں اور پیداوار سے متعلق اُن کی رہنمائی کرے اور اُنہیں موسمیاتی تبدیلوں کے بارے میں آگاہ کرے کہ کون سی فیصل اُگائی جائے۔