زینب بنام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
زینب میں سب کچھ تھا‘ وہ خوب صورت تھی‘ پڑھی لکھی تھی‘ عقل مند اور سگھڑ تھی اور سب سے بڑھ کر وہ بااخلاق تھی‘ والدین کا دل سے احترام کرتی تھی لہٰذا والد نے جہاں کہا اس نے چپ چاپ شادی کر لی مگر جواد اس کا خاوند اپنی کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتا تھا چناں چہ گھر شروع ہی سے گھر نہ بن سکا۔

وہ دونوں اکٹھے رہتے رہے مگر ریل کے ٹریک بنے رہے‘ دونوں ساتھ ساتھ بھی تھے اور الگ الگ بھی‘ اس دوری نزدیکی میں پانچ سال ضایع ہو گئے‘ اس دوران بیٹی بھی پیدا ہو گئی‘ گھر میں پھڈے شروع دن سے تھے‘وقت کے ساتھ یہ بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ زینب اپنے والدین کے گھر آ گئی‘ خاندان کے بزرگوں نے معاملات سلجھانے کی کوشش کی لیکن معاملہ سلجھ نہ سکا اور یوں طلاق ہو گئی۔

زینب کا خیال تھا طلاق کے بعد اس کی زندگی میں سکون آ جائے گا‘ یہ نوکری کرے گی اور اپنی بیٹی پر توجہ دے گی مگر معلوم ہوا اصل مسائل تو طلاق کے بعد ہوتے ہیں‘ زینب کے کورٹ کچہریوں میں چکر شروع ہوئے اور اس کی باقی زندگی وہیں خرچ ہو گئی۔
مقدمے جب ختم ہوئے تو بیٹی ایم اے میں تھی اور اس کے والد کی واحد جائیداد عدالتی مقدموں میں خرچ ہو چکی تھی‘ زینب کے ساتھ ان 16برسوں میں کیا ہوا ، یہ مجھے اس نے چند دن قبل لکھ کر بھجوا دیا‘ اس کا کہنا تھا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کا قبلہ ٹھیک کر رہے ہیں‘ انھوں نے 44 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا کیس بھی کھول لیا ہے۔

عدالت اب 44سال بعد بھٹو کی روح سے معافی مانگے گی‘پلیز آپ انھیں طلاق یافتہ یا خلع پانے والی عورتوں کے قانونی مسائل بھی بتائیں‘انھیں بتائیں میری جیسی نہ جانے کتنی عورتیں عدالتی چکی میں پس کر بھٹو بن چکی ہیں لیکن آج تک کسی نے ان کی آواز نہیں اٹھائی‘ کسی نے ان کے لیے عدالت یا قانون کا عمل آسان نہیں بنایا‘ ہم بھی بھٹو کی طرح مرنے کے بعد زندہ ہیں اور روز ملک کی مختلف عدالتوں میں ہماری نعشیں دفن کی جاتی ہیں۔

خدا را ہماری بات بھی سن لیں۔ میں نے زینب سے پوچھا‘ آپ کے مسائل کیا ہیں؟ اس کا جواب تھا ’’ عورت کو طلاق تک پہنچنے کے لیے طویل جنگ لڑنی پڑتی ہے‘ یہ برسوں سسرال میں نفرت‘ حقارت اور مار پیٹ کا نشانہ بنتی ہے‘ اس پر بدصورتی‘ بدچلنی‘ بداخلاقی اور پھوہڑپن کے سیکڑوں الزامات لگائے جاتے ہیں۔

اس کے بچوں تک کو بچے نہیں مانا جاتا‘ عورتیں بہرحال رو دھو کر ان مسائل سے بھی نکل جاتی ہیں اوریہ طلاق کے بعد یہ سمجھ لیتی ہیں ہماری زندگی اب بہتر ہو جائے گی مگر طلاق کے بعد پتا چلتا ہے اصل عذاب تو اب آئے ہیں‘ اصل جنگ تو اب شرع ہوئی ہے۔

یہ اگر طلاق کے بعد اپنے خاوند یا اس کے خاندان کے باقی ظلم بھی چپ چاپ برداشت کر جائیں تو شاید ان کی زندگی میں سکون آ جائے لیکن اگر یہ اپناجہیز اور بچوں کا حق مانگ لیں تو آپ یوں سمجھ لیں یہ تیزاب کے دریا سے نکل کر جہنم میں گر جاتی ہیں اور ان کی رہی سہی زندگی بھی دکھ کی داستان بن جاتی ہے‘‘۔

زینب کا کہنا تھا میرے ساتھ بھی یہی ہوا‘ میرے والدین بوڑھے ہو چکے تھے‘ بہن بھائی اپنی زندگیوں میں مگن تھے‘ میرے پاس خود اور اپنی بیٹی کو پالنے کے لیے کچھ نہیں تھا چناں چہ میں نے بیٹی کے نان نفقے اور اپنے جہیز اور زیورات کی واپسی کا مطالبہ کر دیا‘ میرا سابق سسرال مجھے عدالت لے گیا اور میری زندگی عذاب ہو گئی۔

میرا سامنا سب سے پہلے گندی نظروں اور فحش اشاروں سے ہوا‘ وکیل سے لے کر جج تک مجھے ایزی ٹارگٹ سمجھتے تھے اور ان کی خواہش ہوتی تھی میں انھیں اکیلے میں ملوں اور یہ پوری فرصت میں مجھے قانون کی باریکیاں سمجھائیں‘ یہ مجھے بار بار چکر لگواتے تھے‘ میں صبح آٹھ بجے کچہری جاتی تھی اور عدالت بند ہونے تک برآمدوں میں ذلیل ہوتی تھی‘ مجھے اپنے وکیل کو عدالت تک لانے کے لیے بھی ٹھیک ٹھاک پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔

میرا وکیل آ جاتا تھا تو دوسرا وکیل غیر حاضر ہو جاتا تھا اور یوں تاریخ پر تاریخ پڑتی چلی گئی‘ مجھے عدالت میں اپنے جہیز کی رسیدیں بھی جمع کرانی پڑیں‘ اس کے بغیر کیس نہیں ہو سکتا تھا اور دنیا کا کون سا والد یا بھائی ہو گا جو شادی سے پہلے یہ سوچ کر جہیز خریدے گا کہ اس کی بہن یا بیٹی کو طلاق ہوگی۔

لہٰذا وہ ایک ایک چیز کی رسید لے اور اسے اپنے پاس محفوظ بھی رکھے چناں چہ مجھے اپنی ایک ایک چیز یاد بھی کرنی پڑی اور دکان داروں سے منت کر کے اس کی رسید بھی لینی پڑی‘ ہمارے زیادہ تر دکان دار ٹیکس نہیں دیتے چناں چہ یہ پکی رسیدیں نہیں دیتے اور انھیں اگر یہ رسیدیں طلاق یافتہ عورت کو چار پانچ سال بعد دینی پڑ جائیں تو آپ خود اندازہ کر لیجیے اس کا کیا بنے گا لہٰذا مجھے رسیدوں کے لیے بھی خواری برداشت کرنی پڑی‘ رسیدوں کے بعد نیا کھیل شروع ہو گیا۔

میرے سابق خاوندکے وکیل نے کلیم کر دیا ہمیں جہیز ملا ہی نہیں تھا اور یہ تمام رسیدیں جعلی ہیں لہٰذا مجھے حکم دیا گیا آپ رسیدوں کی تصدیق کے لیے دکان داروں کو عدالت میں لے کر آئیں‘ یہ کیسے ممکن تھا؟ کیا کوئی عورت دکان داروں کو رسیدوں کی تصدیق کے لیے بار بار عدالت لا سکتی ہے اور اس عالم میں کہ کیس بار بار ملتوی ہو رہا ہو اورتاریخیں پڑ رہی ہوں۔

مجھے اس کے لیے بھی طویل خواری برداشت کرنی پڑی‘ عدالت کا پروسیجر ہے بچوں کی کسٹڈی اور اخراجات کے لیے ماں (طلاق یافتہ عورت) کو عدالت میں ثابت کرنا پڑتا ہے بچوں کا باپ مالی طور پر بچوں کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہے جب کہ مخالف پارٹی عدالت میں خود کو غریب ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے۔

آپ یقین کریں ایک طلاق یافتہ عورت اگر خود کوبیچ بھی دے تو بھی یہ اپنے سابق خاوند کو خوش حال ثابت نہیں کر سکتی‘ مجھے بھی اپنے سابق خاوند کو خوش حال اور اپنی بیٹی کا خرچ اٹھانے کے قابل ثابت کرنے کے لیے آٹھ سال لگ گئے۔

بہرحال آٹھ سال کی کوشش کے بعد عدالت نے میرے خاوند کو بچی کے اخراجات ادا کرنے کا حکم دے دیا‘ میرے سابق خاوند نے بچی کے اخراجات آڈیٹر جنرل آفس (اے جی آفس) میں جمع کرا دیے‘ میں نے سکھ کا سانس لیا لیکن بعد میں پتا چلا میں ایک عذاب کے بعد دوسرے عذاب میں آ گئی ہوں۔

مجھے اب یہ رقم لینے کے لیے بار بار ’’ویری فکیشن‘‘ کے لیے عدالت جانا پڑے گا اور پھر اسٹیٹ بینک اور متعلقہ بینک سے اجازت لینی پڑے گی‘میں نے یہ بھی کیا اور اس عمل میں خواری بھی ہوتی تھی‘ رشوت بھی دینی پڑتی تھی اور ہر ماہ پندرہ دن بھی ضایع ہو جاتے تھے یوں یہ رقم آدھی رہ جاتی تھی اور میں اس سارے عمل میں خرچ ہو کر رہ گئی‘ میری بیٹی عدالتوں میں بڑی ہوئی‘ یہ پراپر پڑھ نہیں سکی۔

میری شادی کی عمر بھی نکل گئی اور میں بے شمار جسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار بھی ہو گئی‘‘۔زینب کا کہنا تھا آپ چیف جسٹس سے درخواست کریں‘ یہ مہربانی فرما کر اس سسٹم کو آسان بنا دیں۔

میں نے زینب سے پوچھا ’’یہ سسٹم کیسے آسان بن سکتا ہے؟‘‘ اس کا کہنا تھا چیف جسٹس جہیز کی رقم کی حد طے کر دیں‘ طلاق کے بعد یہ رقم ہر صورت عورت کو ملے گی اور کوئی عدالت اور کوئی وکیل اس حد کے لیے کوئی رسید‘ کوئی کاغذ نہیں مانگے گا۔

دوسرا طلاق کے بعد جہیز پولیس کی نگرانی میں سابق خاوند کے گھر سے نکالا جائے‘ عورت کو رقم اور جہیز کی اشیاء کے لیے بھی بہت خواری برداشت کرنی پڑتی ہے‘یہ سسٹم بھی آسان بنا دیا جائے‘ بچوں کے اخراجات کا تعین عورت کے بجائے ایف بی آر اور نادرا سے کروایا جائے‘ ایف بی آر باپ کے اثاثوں کا تخمینہ لگائے‘ اس کے آفس سے پے سلپ منگوائے اور پندرہ دن کے اندر یہ تخمینہ عدالت میں بھجوا دے۔

عورت کو اس سے بری الذمہ قرار دے دیا جائے‘ خدارا ایک طلاق یافتہ ماں کو اس خواری سے بچائیں‘ یہ کیسے ثابت کرے گی اس کے سابق خاوند کے اثاثے کتنے ہیں یا یہ بچوں کی ذمے داری اٹھا سکتا ہے یا نہیں؟دوسرا باپ اخراجات براہ راست عورت یا بچوں کے اکاؤنٹ میں جمع کرائے یا یہ عدالت میں جمع کرا دے‘ چیف جسٹس مہربانی فرما کر اے جی آفس کو درمیان سے نکال دیں وہاں بہت خواری ہوتی ہے۔

طلاق اور خلع کے مقدمات کی مدت طے ہے لیکن جج اور وکلاء اس کی پرواہ نہیں کرتے‘ وکیل جان بوجھ کر التواء لے لیتے ہیں ‘ جج صاحب اگر زور دیں تو وکلاء بار کو انوالو کر لیتے ہیں اور یوں جج دباؤ میں آ جاتے ہیں‘ چیف جسٹس طلاق اور خلع کے مقدمات کی مدت ازسر نو طے کر دیں اور ججوں کو پابند بنا دیں اگر انھوں نے اس مدت میں فیصلہ نہ کیا تو ان کی پروموشن نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس ایک ہی بار پورے ملک میں عائلی مقدمات کی فہرست بھی تیار کرالیں اور پھر جج صاحبان سے پوچھیں‘ یہ مقدمات اتنے سالوں بلکہ دہائیوں سے کیوں زیر التواء ہیں اور پھر اس کے بعد اگلے چھ ماہ میں مقدمات کے فیصلوں کا حکم جاری کر دیں تاکہ دکھی عورتیں سکھ کا سانس لے سکیں اور زینب کی آخری تجویز تھی چیف جسٹس اے جی آفس سے بھی فہرستیں بنوا لیں۔

ان کے پاس اخراجات کے کتنے کیس ہیں اور خواتین کو کتنے دنوں میں پیسے مل رہے ہیں اور انھیں ہر ماہ ویری فکیشن کیوں کروانی پڑتی ہے‘ یہ عمل اتنا لمبا کیوں ہے؟ چیف جسٹس یہ فہرست دیکھ کر بھی حیران رہ جائیں گے۔

زینب کی کہانی میں ان پونے دو کروڑ خواتین کے دکھ اور تکلیفیں ہیں جو ملک میں طلاق کے عمل سے گزریں اور ان کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل اور تکلیف دہ ہو گئی‘ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر چند منٹ اس ایشو کو دے دیں‘ آپ کو کروڑوں خواتین اور بچے دعائیں دیں گے اور دعائیں وہ واحد نعمت ہیں جن کی بادشاہوں اور چیف جسٹس صاحبان کو بھی ضرورت ہوتی ہے۔

Back to top button