سندھ کے ڈاکو ہر حکمران کے تاج کا کنکر کیوں بنے رہے؟َ
سندھ کے ڈاکوئوں کی وارداتوں کا سلسلہ 8ویں صدی سے شروع ہوا جب سری لنکا سے حجاز جانے والے عرب تاجروں کے بحری جہاز کو لوٹا گیا، کہانی کے مطابق، ڈاکوؤں کی اس لوٹ مار پر ایک عرب عورت کی فریاد کی وجہ سے اس وقت کے اموی خلیفہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کی کمان میں فوجیں سندھ پر حملے کیلئے بھیجیں۔سندھ پر قابض انگریز حکمران جن کے بارے میں ایک مغالطہ یہ رہا ہے کہ ان کے دور میں امن و امان کی صورت حال اتنی بہتر تھی کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کرتے تھے جبکہ حقیقت تو یہ ہے ان کے دور میں بھی اصلی یا ان کے اپنے قرار دیئے گئے ’’ڈاکوؤں‘‘ کا ان سے مقابلہ رہا۔ ان میں برطانوی راج کے وہ باغی بھی تھے جن کو حکومت نے ’’ڈاکو‘‘ قرار دیا تھا جو ان کے راج کے تسلط کے خلاف بغاوت پر اترے ہوئے تھے۔پھر19ویں صدی کی آخری دہائی والی “حر بغاوت” ہو یا بیسویں صدی کے وسط کی حر بغاوت، انگریزوں کو پیر پاگارو کے ان حروں کی مزاحمت کا سامنا رہا، ان مزاحمتی حروں کو انگریزوں نے ’’ڈاکو‘‘ قرار دیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی سرزمین پر انگریزوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہوئی تھی۔قیام پاکستان کے بعد پیر پاگارو نے اپنے روپوش حروں کو حکومت کے سامنے گرفتاری پیش کرنے کا کہا تھا لیکن رحیم ہنگورو نے حکم عدولی کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ رحیم ہنگورو گرفتار ہوا۔ چند برسوں بعد رحیم ہنگورو کو حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔تقسیم سے قبل ہی راجستھان اور گجرات سے سندھ میں داخل ہو کر ڈاکو (دھاڑیل) ڈھاٹی اونٹوں پر چڑھ کر بستیوں اور رجواڑوں پر دھاوا بولتے اور ان کی ایسی کارروائیوں کی کہانیاں سندھی لوک شاعری اور داستانوں میں بھی موجود ہیں۔ ڈاکو سندھی ادب کا بھی موضوع رہے ہیں ۔سندھ کے شہر خیرپور میرس میں ایک ڈاکو محرم جانوری پر معروف سندھی افسانہ نگار امر جلیل نے ایک افسانہ “محرم جانوری کا مفرور ساتھی” کے عنوان سے لکھا تھا، یہ 1970 کی دہائی تھی جب سندھ میں ڈاکوؤں نے اپنی وارداتوں میں بھیانک طریقہ واردات اختیار کیا، یعنی اغوا برائے تاوان جیسا جرم جو آنے والی دہائیوں میں گویا “صنعت کا درجہ” حاصل کر گیا اگرچہ سندھ میں کچھ ڈاکوؤں کے پاس اکا دکا اسٹین گن جیسا ہتھیار ستر کی دہائی میں پہنچا ہوا تھا لیکن افغانستان میں جنگ کے دوران سندھ میں بھی ہتھیاروں کا زبردست پھیلاؤ ہوا ، جس میں کلاشنکوف یا اے کے 47 جیسے ہتھیار سندھ کے ڈاکوؤں اور شہروں میں سرگرم لسانی گروہوں کے ہاتھوں میں پہنچے۔23 مارچ 1985 کو ڈاکوؤں نے، باہر سے، سکھر سینٹرل جیل پر حملہ کرکے کئی ڈاکووں کو فرار کروایا جو اس وقت پھانسی گھاٹ میں قید تھے۔سکھر سینٹرل جیل میں کئی سیاسی قیدی بھی تھے۔جنہوں نے جیل ٹوٹنے کے وقت فرار ہونے سے انکار کر دیا تھا، دادو ضلع کے میہڑ میں شاہ پنجو سلطان کے مزار کے قریبی گاؤں میں ایک ہاری (کسان) کے گھر پیدا ہونیوالا پریل عرف پرو چانڈیو سندھ کا ایک خطرناک لیکن سخی لٹیرے جیسا کردار بنا۔ سونا بنڈی جنگلات کو اس نے اپنی کمین گاہ بنایا۔ میہڑ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں مائیکروفون پر اس نے اعلان کیا کہ بیروزگار نوجوان اس کے ٹولے میں بھرتی ہوسکتے ہیں، جن کو اچھی تنخواہیں دی جائیں گی۔علاقے کے لوگ کہتے ہیں، وہ غریب لڑکیوں کو جہیز دیتا، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کرتا۔ اسے یہ کہتے سنا گیا کہ وہ وڈیروں اور پولیس کے مظالم سے ڈاکو بنا ہے۔کشمور کے قریب جاپانی سیاح اوردادو میں چینی انجینئر بھی ڈاکوؤں کے گروہوں کے ہاتھوں اغوا ہوئے، قصہ مختصر یہ کہ ڈاکو، کلہوڑا دور سے لے کر آج تک سندھ کے ہر حکمران کے تاج کا کنکر رہے ہیں۔ چاہے وہ وراثتی بادشاہتیں تھیں یا انگریزوں کا راج، یا برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان میں منتخب سویلین حکومتیں یا فوجی آمریتیں، لیکن تاریخی طور پر سندھ پر ڈاکو راج کی اندھیری راتیں ہر حکمران کیلئے چیلینج رہی ہیں۔