نون لیگ نے اپوزیشن کا کردار ڈیپ فریزر کی نذر کردیا

پاکستانی معیشت کی روز بروز دگرگوں ہوتی صورتحال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی اور بیروزگاری کے بعد عوام کے صبر کا پیمانہ تو لبریز ہوگیا ہے لیکن کپتان کی ہوم گراؤنڈ پنجاب سے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نواز لیگ نے اس نازک موقع پر عوام کی آواز بننے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے بطور اپوزیشن کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے خود کو ڈیپ فریزر میں لگا دیا ہے۔
عمران خان کی بطور وزیر اعظم خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کی حکومت کے ناکام ہو کر منہ کے بل جاگرنے کے باوجود سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کی قیادت بیماری اورعلاج کے بہانے ملک سے ایسی باہر گئی ہے کہ واپس آنے کا نام نہیں لے رہی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بیمار نوازشریف ہیں لیکن نون لیگ کے مرکزی صدر شہباز شریف بھی بھائی کی بیماری کی آڑ میں تین ماہ سے لندن کی ہواؤں کے مزے لیے جا رہے ہیں اور واپس آنے سے انکاری ہیں۔
پاکستان میں موجود مسلم لیگ ن کی دوسرے درجے کی قیادت کو دیکھیں تو بھی بطور اپوزیشن اس کا کردار مفقود نظر آتا ہے۔ موجودہ دور میں معشیت کے حالات پہلے سے دگرگوں ہیں۔ امن عامہ کی حالت بھی بد تر ہے۔ پولیس بھی اپنی من مانی کر رہی ہے۔ بجلی کی قیمیتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔ پٹرول کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ شرح ترقی بہت زیادہ گر گئی ہے۔ وزیراعظم اسمبلی میں تشریف نہیں لاتے۔ کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی ہے۔ اسمبلی ایک ڈبیٹنگ کلب سے زیادہ کا کردارادا نہیں کر رہی۔ آٹے کی قیمت کا سکینڈل آ چکا ہے اور لوگ بھگت رہے ہیں۔ چینی کی قیمت بڑھ چکی ہے اور کپتان کے قریبی ساتھی جانگیرترین اس برس شوگر بزنس سے ایک سو ستر فیصد منافع کما چکے ہیں۔ کپتان آئی ایم ایف کے چنگل میں ہیں اور ایک مرتبہ پھر اسکے نتیجے میں عوام بھگت رہے ہیں۔ پہلے سے دوگنے قرضے لیے جا چکے ہیں۔
تاہم اس ابتر صورتحال میں اپوزیشن ملک سے غائب ہے۔ نہ تو کہیں کوئی احتجاج ہو رہا ہے اور نہ ہی کوئی جلسہ ہو رہا ہے۔ پچھلے قریباً دو سال کے عرصے میں ن لیگ کی توجہ اپنے لیڈروں کی رہائی، ان کی علالت اور ان کے علاج تک محدود رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ووٹروں کو اپنے قائدین سے بے حد محبت ہوتی ہے لیکن یہ محبت بھی خالی پیٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ لوگ جب ووٹ دیتے ہیں تو ان کے پیش نظر ان کی زندگی کا سب سے بڑا مطالبہ ان کے لیڈروں کی رہائی نہیں ہوتا۔ لوگ اس توقع پر ووٹ دیتے ہیں کہ انکے قائدین ان کی فلاح کے لیے کچھ کریں گے۔ انکے بچوں کی زندگی محفوظ اور پر سکون بنائیں گے۔ ان کو بلاوجہ کی کورٹ کچہری سے نجات دلائیں گے۔ ان کے غم اور خوشی میں ان کا ساتھ دیں گے۔ ان کے بہتر مستقبل کا فیصلہ کریں گے اور کچھ نہیں تو ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور ان کی آواز بنیں گے۔ ان کے حق میں احتجاج کریں گے اور حکومتی ظلم اور ناانصافی کے خلاف ڈھال بنیں گے۔
تاہم ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر آج کے حالات عمران خان کو اپوزیشن میں میسرآ جاتے تو انہوں نے قیامت بپا کر دینا تھی لیکن ن لیگ سوائے ماتم کے کچھ بھی نہیں کر رہی۔ اس وقت عام آدمی جس مشکل میں ہے اس کا ازالہ اسمبلی میں ایک آدھ کارروئی نما تقریر سے نہیں ہو سکتا۔ حالات کا تقاضا کچھ اور ہے ایسے میں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی منہ میں گھنگنیاں ڈالے، لندن میں قیام کیے کسی ’مبارک‘ فون کا انتظار کر رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت کو چاہیے کہ کسی اور سے نہیں تو عمران خان سے ہی اپوزیشن کرنے کا فن سیکھ لے کیونکہ خان صاحب اس قوم کو یہ باور کروا چکے ہیں کہ وہ اپوزیشن کرنے کے مرد میدان ہیں اور اس حد تک اپوزیشن کرتے ہیں کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی اپوزیشن لیڈروں کی طرح ہی تقریر فرماتے ہیں۔
سیاسی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کپتان نے اپوزیشن کے لیے ہر وہ موقع پیدا کیا جس کے نتیجے میں عوام تنگ ہوں اور اپوزیشن اپنی سیاست چمکا سکے لیکن افسوس کہ اپوزیشن نے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی آواز بننے کی بجائے چپ سادھ رکھی ہے، نہ پٹرول کی قیمت بڑھنے پر کوئی احتجاج ہوا، نہ گیس کی قیمت میں اضافے پر کوئی جلوس نکالا گیا، نہ آئی ایم ایف سے ڈیل پر دھرنا دیا گیا نہ ڈالر کی قیمت میں اضافے پر لاک ڈاؤن کی کال دی گئی، نہ آٹے کے بحران پر احتجاج کی کال دی گئی، نہ میڈیا کے حقوق کے لیے آواز بلند کی گئی نہ بڑھتی بے روزگاری پر پریس کانفرنس کی گئی، نہ غربت سے خود کشیاں کرنے والوں کی لاشوں کو چوک میں رکھ کر عوام کو اشتعال دلایا گیا نہ ہی سانحہ ساہیوال پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ صورت حال زیادہ دیر برقرار رہی تو ایک کروڑ 35 لاکھ لوگ مایوس ہو جائیں گے۔ جی ٹی روڈ کا کراؤڈ خاموش ہو جائے گا۔ تخت پنجاب ہاتھ سے نکل جائے گا، سول سپریمیسی کے نعرے لگانے والے خاموش ہو جائیں گے اور ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرنے والے عوام بھی اپنی قیادت کی طرح بوٹ کو عزت دینے کا سوچنا شروع کر دیں گے۔