سپریم کورٹ کا فیصلہ، عمران کیلئے بڑا سیاسی دھچکا
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے عمران خان کے خلاف دائر کردہ تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا عمل غیر آئینی قرار دیئے جانے اپوزیشن کے اس موقف کی تائید ہو گئی ہے کہ کپتان نے اپنی یقینی شکست سے بچنے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو استعمال کیا اور ان سے ایک غیر آئینی رولنگ دلوائی جس سے ملک ایک آئینی بحران کا شکار ہو گیا۔ سیاسی تجزیہ کار سپریم کورٹ کے فیصلے کو عمران خان کی سیاسی ساکھ کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس معاملے میں موصوف فتح کا جو تاثر دے رہے تھے وہ اب شکست میں تبدیل ہو گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران کو آج جس مشکل صورت حال کا سامنا ہے، وہاں پہنچنے کی وجہ ان کی اپنی غلطیاں ہیں۔ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں عمران خان ایک مرتبہ پھر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے اور ان کی شکست یقینی ہے جو انکے لیے مزید شرمندگی کا سامان پیدا کرے گی اور وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن جائیں گے جنہیں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ موجودہ صورتحال میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عمران اب سیاسی تنہائی کی طرف جا رہے ہیں۔ تقریبا پونے چار برس تک ان کے اتحادی رہنے والی جماعتیں اور انکے اپنے دیرینہ ساتھی ان کو چھوڑ رہے ہیں۔ عمران خان نے جس تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش قرار دے کر اس کا سامنا کرنے سے گریز کیا وہ ایک مرتبہ پھر ان کے سامنے کھڑی ہے۔ عمران کے لیے زیادہ شرمندگی کی بات یہ ہے کہ عمران نے تحریک عدم اعتماد کو اپنی حکومت گرانے کی غیر ملکی سازش قرار دیا، لیکن پھر خود اپنی حکومت ختم کر کے مبینہ غیر ملکی ایجنڈا بھی پورا کر دیا۔ پاکستان کا ایک مقبول ترین سیاسی رہنما اس حال کو کیسے پہنچا یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب عمران خان کے دوست ہی نہیں مخالف بھی تلاش کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران کی ناکامی کی وجہ بننے والی چند بڑی غلطیوں میں بنیادی غلطی عوامی فلاح پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپوزیشن کے خلاف احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیوں پر وقت ضائع کرنا تھی۔ عمران کے ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی ایک اور بڑی غلطی یہ تھی کہ انہون نے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کی بجائے مختلف پارٹیوں سے آنے والے الیکٹیبلز پر بہت زیادہ انحصار کیا۔انہی لوگوں کی وجہ سے وہ کمپرومائز پر مجبور ہوئے۔ آج جن لوگوں کو خود عمران خان لوٹے، میر جعفر، میر صادق اور ضمیر فروش کے القاب سے نواز رہے ہیں انہیں عمران نے اپنی آمادگی اور خوشی کے ساتھ پارٹی میں شامل کیا تھا اور ان کو بڑے بڑے عہدے دیے تھے۔ عمران کی بڑی ناکامی یہ ہے کہ اب صرف الیکٹیبلز ہی نہیں بلکہ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے انکی وفادار ساتھی بھی انکو چھوڑ چکے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی ناکامی ایک بڑی وجہ یہ بنی کہ وہ جس اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر برسراقتدار آئے تھے، اس کے ساتھ بھی ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ ان کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی جائے۔ ان کے بقول آئی ایس آئی کے سربراہ کے نوٹیفیکیشن کے اجراء میں رخنہ اندازی اور تاخیری حربے بھی عمران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں فاصلوں کا باعث بنے۔ ان کے مطابق عمران خان کے ضدی اور اکھڑ طرز عمل سے بھی انکے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کو نقصان پہنچا۔ فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے والے عمران بعد میں فوج ہی کے ساتھ سیدھے ہو گئے اور یہ اصرار کرنا شروع کر دیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر ان کا استحقاق ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کی جانب سے فوج کے اندر اپنے پسندیدہ لوگوں کا گروپ بنانا بھی ان کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ بنی۔
عمران خان کی ایک اور بڑی ناکامی یہ رہی کہ وہ اپنی جماعت کے اندر گروپ بندیاں ختم کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے جس سے لوگوں کے باہمی اختلافات میں شدت آتی گئی۔ انہوں نے پارٹی گروپس میں موجود سنگین اختلافات سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کیا، جس سے اختلافی گروپ تقویت پکڑتے گئے۔ ان کی ایک اور ناکامی اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ نہ رکھ پانا تھی جس کے نتیجے میں اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرلی۔ اسی طرح وہ اپنی جماعت کے درجنوں اراکین قومی اسمبلی کی حمایت بھی کھو بیٹھے۔
عمران خان کی ایک اور بڑی غلطی بیرون ملک سے آنے والے موقع پرستوں کو اپنی کابینہ میں بطور وزیر مشیر اور معاون خصوصی شامل کرنا رہی۔ وہ لوگ جو دوسرے ملکوں سے آ کر پہلی مرتبہ پاکستان میں حکومتی اقتدار سے وابستہ ہوئے تھے انہوں نے عمران اور پارٹی کارکنوں میں پل بننے کی بجائے خان صاحب کو ایسے مشورے دیے، جن سے بحرانوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ ان غیر سیاسی لوگوں نے کئی موقعوں پر ایسا غیر پارلیمانی اور غیر شائستہ اسلوب اختیار کیا، جس سے سیاسی اختلافات مزید بھڑکے اور ملک میں استحکام نہ آ سکا۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایک تو عمران خان اپنے مخالفین کے حوالے سے شروع سے ہی جارحانہ طرزعمل کے عادی تھے لیکن ان کے ‘شعلہ بیان‘ مشیروں کے مشوروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
اسی طرح عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلی بنانا عمران کی ایک بڑی غلطی تھی۔ انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جس کے پاس اس اسائنمنٹ کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ پی ٹی آئی میں کئی گروپ عثمان بزدار کی تقرری کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ لیکن انہوں نے اپنی مخالفت کا زوردار اظہار بعد میں کیا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بزدار کی جگہ پر وزیراعلی بنانے کے لیے، جس کا نام بھی آتا اسے نیب پکڑ کر لے جاتی۔ صوبائی وزراء سبطین خان اور علیم خان اس کی دو مثالیں ہیں۔ یہ تاثر بھی عام رہا کہ بزدار کو ہٹانے کے لیے اسٹیبلشمینٹ سے آنے والی تجویز کو بھی عمران نے شرف قبولیت نہ بخشا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جیسے ہی عثمان بزدار نے استعفی دیا ان پر یہ الزامات عائد ہونا شروع ہو گئے کہ وہ خاتون اول بشری بی بی کی کرپشن میں برابر کے حصہ دار تھے۔
اسکے علاوہ عمران نے میڈیا کو بھی اپنی آمرانہ پالیسیوں اور جابرانہ پابندیوں کی وجہ سے مخالف بنا لیا جس کا خمیازہ اب وہ کھلی تنقید کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔