آئین شکنی کرنے والوں کے خلاف کارروائی اگلی حکومت کرے گی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ غیر آئینی قرار دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور بدنام زمانہ نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کی جانب قدم بڑھا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ڈپٹی سپیکر کے پاس تین اپریل کے روز وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا، لیکن انہوں نے بد نیتی پر مبنی غیر آئینی رولنگ دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد اب ان کے خلاف آئین شکنی کے الزام پر بھی کاروائی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں صدر اور وزیراعظم نے مل کر قومی اسمبلی بھی توڑ دی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے سپیکر، وزیراعظم اور صدر پر لگائے جانے والے آئین شکنی کے الزامات کو بھی تقویت ملی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں آج دن تک صرف جنرل پرویز مشرف پر آئین شکنی کے تحت کیس چلا تھا اور اسے سزائے موت سنائی گئی تھی جس سے بچنے کے لیے سابق فوجی آمر بیرون ملک فرار ہوگیا۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ان کے اسپیکر نے جو حرکت کی ہے اس کے بعد ان دونوں کے خلاف بھی آرٹیکل 6 کے تحت تحت کارروائی کا قوی امکان موجود ہے۔ یاد رہے کہ مشرف کے خلاف بھی آئین شکنی کے الزام پر کارروائی پارلیمنٹ نے کی تھی۔ مسلم لیگ نون کی قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اسمبلی بحال ہونے کی صورت میں اپوزیشن اقتدار میں آ جائے گی اور اور عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف آئین شکنی کے الزام پر کاروائی کی جائے گی۔
اگر ایسا ہوا تو عمران خان پہلے سویلین حکمران ہوں گے جن کو آئین شکنی کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو آئین اور ضوابط کے منافی قرار دے کر مسترد کیے جانے کے بعد اپوزیشن نے ان پر آئین شکنی کا الزام عائد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ قاسم سوری نے یہ کہہ کر وزیراعظم قرارداد مسترد کی تھی کہ ‘عدم اعتماد کی تحریک ایک بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے اور آئین اور قومی مختاری و آزادی سے منافی ہے۔ لہذا انہوں نے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد رولز اور ضابطے کے خلاف ہے اور میں اسے مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قاسم سوری نے جو رولنگ دی وہ تحریری شکل میں موجود تھی اور وہاں اسے کاغذ سے پڑھ رہے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ روانی میں اسد قیصر کا نام بھی پڑھ گئے جنہوں نے کہ اجلاس کی صدارت کرنا تھی لیکن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کر دی گئی تھی۔
ڈپٹی سپیکر کی جانب سے آئین شکنی کے فورا بعد عمران خان نے قوم کو ایک ریکارڈ شدہ خطاب میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا تھس کہ ‘صدر کو ایڈوائس جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی اور پھر آگے جو بھی عمل ہے اگلے انتخابات کا یا عبوری حکومت کا وہ اب شروع ہوجائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد درحقیقت بیرونی مداخلت سے حکومت گرانے کی سازش تھی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے بھی تقریر پہلے سے ریکارڈ کروا رکھی تھی اور یہ تمام واردات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈالی گئی تھی جیسے کہ اب سپریم کورٹ نے بھی کنفرم کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کی اس تقریر کے فوری بعد صدر علوی نے قومی اسمبلی توڑ دی تھی اور انہیں بطور نگران وزیر اعظم کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
تاہم قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سپیکر قاسم سوری اور وزیر اعظم عمران خان پر ’سنگین غداری‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں پر پاکستان کے آئین کا ’آرٹیکل چھ‘ لگے گا جو غداری کے بارے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق 3 اپریل آخری دن تھا جب وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانا لازمی تھی، لیکن عمران خان کی ہدایت پر سپیکر نے آئین شکنی کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد بھی مسترد کردی اور اجلاس بھی ملتوی کردیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ لازمی تھی۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ قاسم سوری کی آئین شکنی کی تصدیق یو گئی ہے جو کہ غداری کے زمرے میں آتی ہے اور اس کی سزا موت ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کےصدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان اور قاسم سوری نے واضح طور پر آئین شکنی کی ہے اور غداری کے مرتکب ہوئے ہیں لہذا ان دونوں کے خلاف آئین شکنی کی دفعات کے تحت آرٹیکل 6 کی کارروائی ہونا لازمی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ غداری کا تعین کرنا اور اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا صرف اور صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ اس بات کی تحقیق کے بعد وفاقی حکومت شکایت کا آغاز کرتی ہے۔ اسکی وضاحت کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ غداری کی کارروائی کا آغاز وزیرِ داخلہ کر سکتے ہیں تاہم اس کا حتمی فیصلہ وزیرِ اعظم اور وفاقی کابینہ کرتی ہے۔ یعنی قاسم سوری اور عمران خان کے خلاف آئین شکنی کی کاروائی اگلی حکومت کرے گی۔