سپریم کورٹ کے نوٹس پر عمران خان مشکل میں آ گئے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کو تحریک انصاف لائرز فورم کی اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں بطو مہمان خصوصی شرکت کرنے پر نوٹس جاری کردیا ہے۔
ایک صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو کنونشن سینٹر اسلام آباد میں وکلا کے ایک مخصوص دھڑے کی تقریب میں شرکت کرنے پر جاری کیا۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم پورے ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں، کسی ایک گروپ یا دھڑے کے نہیں، عمران خان ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں؟ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر کنوینشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حثیت میں شرکت کی۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کی وکلا کے کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی، انہوں نے وکلا کی تقریب میں شرکت کرکے ایک گروپ کی حمایت کی جو کی غلط ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ انچارج کنوینشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گیے؟
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے پر بینچ تشکیل دینے کے لیے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو ارسال کردیا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنوینشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز بھجوا دیے۔ خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 9 اکتوبر 2020 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت بھارت کا ایجنڈا لے کر چلنے والے لوگ یہ ہیں، آئی ایس آئی کو ان کی چوری کا پتہ ہوتا ہے اس لیے ہر آرمی چیف سے ان کو مسئلہ ہے کیونکہ یہ فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے تھے۔
سابق وزیراعظم کی بیماری سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہماری کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا، ہمیں ایک عدالت نے کہا کہ نواز شریف کو کچھ ہوگیا تو حکومت ذمہ دار ہوگی، اب عدالت کا بھی احترام کرتے ہیں، کابینہ کا 6 گھنٹے اجلاس ہوا جہاں ڈاکٹر بیٹھے ہوئے ہیں اور بیماریاں بتارہے ہیں، ہم سب پریشان ہیں ایک آدمی کو اتنی ساری بیماریاں کیسے ہوسکتی ہیں’۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘جب ان کی ساری بیماری بتائی گئیں تو ہماری انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اگر شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آئے تو سوچیں کس طرح کی بیماریاں ہمیں بتائی گئی ہوں گی، ہمیں خوف آگیا کہ یہ جہاز کی سیڑھیوں پر بھی چڑھ سکے گا یا نہیں’۔ انہوں نے نواز شریف کے بارے میں کہا تھا کہ ‘انہوں نے پاکستانی فوج پر جو حملے کیے اور زبان استعمال کی ہے، اس پر ایک بات کہوں گا کہ اگر اس وقت کوئی بھارت کا ایجنڈا لے کر پھرتا ہے تو وہ یہ ہیں، پاکستانی فوج کے لیے جو زبان استعمال کر رہے ہیں یہ وہی ایجنڈا ہے جو ایف اے ٹی ایف کا ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے بھارت پوری کوشش کر رہا ہے’۔ عمران خان نے کہا کہ ‘مجھے پاکستانی فوج سے کوئی مسئلہ کیوں نہیں ہے، کون سا ایسا کام ہے جس میں فوج نے ہمارے منشور پر عمل نہیں کیا’۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے بھیجے گئے اس معاملے کی سماعت کی چیف جسٹس گلزار احمد کوئی بینچ بناتے ہیں یا نہیں؟