سینیٹ چیئرمین اکثریت والی اپوزیشن کا ہو گا یا اقلیت والی حکومت کا؟

سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں حکومتی اتحاد کے اقلیتی امیدوار صادق سنجرانی کو جتوانے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا اعلان کرنے کے بعد اب اپنی اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کی سخت نگرانی شروع کردی یے اور انہیں کڑے پہرے میں رکھا جا رہا ہے۔سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد سے کچھ وزراء صاحبان تو ایک دوسرے پر بھی شک کرنے لگے ہیں کہ پتہ نہیں کتنے وزیروں نے ’’نظریاتی اختلاف‘‘ کے باعث حفیظ شیخ کے خلاف ووٹ ڈال دیا۔
سینیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا تھا۔ لیکن اب چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں عمران خان کے امیدوار صادق سنجرانی پر وہی الزامات لگائے جا رہے ہیں جو چند دن پہلے یوسف رضا گیلانی پر لگائے جا رہے تھے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے نو مارچ کو میڈیا کے سامنے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی پیشکش کر دی یے۔ اسی دن بلوچستان سے مالدسر ٹھیکیدار سینیٹر عبدالقادر نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر کے حکومت اور اپوزیشن میں ہر قسم کا فرق مٹا دیا۔ عبدالقادر کی تحریک انصاف میں شمولیت کے چند گھنٹوں بعد خیبر پختونخوا سے منتخب ہونے والے آزاد سینیٹر شمیم آفریدی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ ان دنوں مجھ جیسا گناہ گار انسان جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کی تقریروں میں قرآن و حدیث کا ذکر سنتا ہے تو نظروں کے سامنے عبدالقادر اور سیف ﷲ ابڑو کے چہرے گھومنے لگتے ہیں۔ عمران خان ہمیشہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو این آر او نہیں دیں گے۔ کیا انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی پیشکش کر کے اپوزیشن کو این آر او دینے کی کوشش نہیں کی؟ مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینیٹر صاحبان کے ووٹ توڑ کر ہو سکتا ہے عمران خان یوسف رضا گیلانی سے اپنا حساب برابر کر لیں لیکن وہ اپنے ہی حامیوں کی نظروں میں گر بھی سکتے ہیں۔ حامد میر کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے لئے اسلام آباد میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ارکان کی وفاداریاں بھی خرید رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھری بیان بازی بھی کر رہے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی اقلیت کے امیدوار تھے لیکن انہوں نے اکثریت کے امیدوار کو شکست دی۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں گیلانی صاحب اکثریت کے امیدوار ہیں لیکن اقلیت کا امیدوار اُن کے برابر پہنچ چکا ہے۔
یاد رہے کہ نمبرز گیم کے مطابق سینیٹ میں حکومت کے 47 اور اپوزیشن کے 53ارکان ہیں۔ نواز لیگ کے سینیٹر اسحاق ڈار لندن میں مقیم ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان فی الحال اپوزیشن کو ووٹ نہیں دے رہے یوں اپوزیشن کے ارکان 51 رہ گئے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اے این پی بلوچستان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ووٹ اُسے ملیں گے۔ اگر حکومتی ذرائع کا یہ دعویٰ درست ہے تو اُس کے ووٹ 50 ہو جائیں گے اور مقابلہ سخت تر ہو جائے گا۔ اے این پی کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ بلوچستان کے نو منتخب سینیٹرز کا ووٹ گیلانی صاحب کو ملے گا اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی حکومتی دعوئوں کی تردید کی ہے لیکن اگر سنجرانی صاحب اپنی قاتل مسکراہٹ سے مسلم لیگ (ن) کے دو تین ووٹ توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو اپوزیشن کی اکثریت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اس صورت میں 2019 سینیٹ الیکشن والی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جا سکتی ہے جب اپوزیشن اتحاد 14 ووٹوں کی اکثریت رکھنے کے باوجود سنجرانی کے ہاتھوں شکست کھا گیا تھا کیونکہ خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کے 64 50 پچاس رہ گئے تھے۔
حامد میر کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کی عدم موجودگی اور شہباز شریف کے جیل میں ہونے سے حکومت اور ریاست کے لئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز پر دباؤ ڈالنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن کوئی بھی جیتے اس الیکشن کے نتائج سے پاکستان کے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن جو ہار جائیں اُنہیں آئندہ سینیٹ کے ٹکٹ بانٹتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ مشکل وقت میں یہ سینیٹر صاحبان اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا نہیں؟ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے بعد 23؍ مارچ کو یوم پاکستان آئے گا۔ یوم پاکستان پر ایک قوم اور ایک منزل کے نعرے لگیں گے لیکن 26مارچ کو پی ڈی ایم کا لانگ مارچ شروع ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ایک دوسرے پر کرپشن اور غداری کے الزامات لگتے رہیں گے۔ نفرتوں کی سیاست بڑھتی رہے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے وزیراعظم صاحب بھارتی وزیراعظم کو ہٹلر قرار دیا کرتے تھے۔ اس ہٹلر کے بارے میں اُن کا لہجہ نرم پڑ چکا ہے اور بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان نے ہٹلر کی فوج کے ساتھ سیز فائر کر لیا ہے لیکن وہ اپنے ملک کی اپوزیشن کے ساتھ سیز فائر کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہٹلر نے سوچا ہو کہ مجھے پاکستان سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی تو آپس میں مرنے مارنے پر تیار بیٹھے ہیں لہٰذا ان کے ساتھ سیز فائر کر لو تاکہ یہ بیرونی خطرے سے آزاد ہو کر ایک دوسرے کے لئے خطرہ بن جائیں؟ دشمن کے ساتھ سیز فائر ہو سکتا ہے تو آپس میں کیوں نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button