شدت پسندوں کا اگلا نشانہ پاکستانی ریاست کیوں ہے؟

سیالکوٹ میں ہونے والے اندوہناک سانحے کو ریاست پاکستان کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے جس نے انتہا پسندی میں ملوث تحریک لبیک اور تحریک طالبان جیسی تنظیموں کے ساتھ معاہدے کر کے ریاست کی رٹ کا جنازہ نکالا اور شدت پسند عناصر کو مزید مضبوط کیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ توہینِ مذہب کے الزم پر تحریک لبیک والوں کے ہاتھوں سری لنکن شہری کے لرزہ خیز قتل کا واقعہ ہرگز پیش نہ آتا اگر ریاست درجن بھر سے زائد پولیس جوانوں کے قتل میں ملوث تحریک لبیک کے خلاف قانونی کارروائی کرتی، بجائے کہ اس پر عائد پابندی ختم کرتی۔ انکا کہنا ہے کہ آج محمد علی جناح کے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب ریاستی پالسییوں کا شاخسانہ ہے جو کہ انتہا پسند گروہوں کو ایک عرصے سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ گذشتہ ستر برس سے ریاست نے جن عناصر کو اپنے اثاثے کے طور پر پروان چڑھایا اب وہ بے قابو ہو کر ملک میں دہشت گردی پھلا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں ایک کارخانے کے ملازمین نے لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے سری لنکا مینجر پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کر دیا اور بعد ازاں اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو سرِعام نذرِ آتش کر دیا تھا۔ اس دوران سفاک قاتلوں کا ہجوم جلتی ہوئی لاش کے ساتھ سیلفیاں بھی بناتا رہا۔ عمران خان حکومت سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ایسے واقعات کو عالمی سطح پر ملک و قوم کے تشخص کو مسخ کرنے کی وجہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی میں ملوث عناصر کے ساتھ حکومتی سمجھوتوں سے نہ صرف ریاست کی رٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ معاشرے میں شدت پسندی بھی بڑھ رہی ہے اور انتہا پسند عناصر ڈنڈے کے زور پر خود کو منوانے کے درپے ہیں۔ خیال رہے کہ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے تحریکِ لبیک کے اسلام آباد کی جانب رواں دواں لونگ مارچ کا دباؤ لیتے ہوئے اسکے ساتھ معاہدہ کیا تھا جب کہ کالعدم تحریکِ طالبان کے ساتھ بھی حکومت نے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس سے ایک عارضی سمجھوتہ بھی ہو چکا ہے۔
دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری سیالکوٹ واقعے کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور اُنہیں شرمندگی اور خوف اس بات کا ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ بھی نہیں ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے ہمارے ہاں ایسے خونی واقعات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ‘ہجوم’ کو قوم بنانے کے لیے جو نظریاتی تربیت درکار تھی وہ ہم نے نہیں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جائیداد، کاروباری تنازعات، ملازم اور آجر کے اختلافات پر بھی کسی سے انتقام لینے کے لیے اس پر توہینِ مذہب کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ اس معاملے پر سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ہر معاشرے کو ایک دائرے کے اندر رکھنے کے لیے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا سے ڈرایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اور ریاست کو یرغمال بنانے اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو قتل کرنے والے عناصر کے سامنے سرنڈر کر کے ان کے ساتھ سمجھوتے کئے جا رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ریاست طے کر لے کہ کوئی بھی گروہ ریاست کو یرغمال نہیں بنا سکتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کی نظریاتی اساس مضبوط کی جائے اور اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ سے سختی سے نمٹا جائے۔ بقول سہیل وڑائچ جب کسی کو قانون کا خوف نہیں ہوگا تو پھر سیالکوٹ جیسے واقعات ہی رونما ہوں گے۔ انکے بقول ہمارے ہاں سیاسی مصلحتوں کے باعث شدت پسند عناصر کے ساتھ ہاتھ ملائے جاتے رہے ہیں اور یہی ہماری بدقسمتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہم نے گزشتہ چار دہائیوں میں شدت پسندانہ بیانیے کو نہ صرف اپنے ملک اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی فروغ دیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ اس وقت مغرب کو اپنا مفاد عزیز تھا، لہذٰا اُن کے لیے بھی اس وقت یہ بیانیہ قابلِ قبول تھا۔ مصطفیٰ کھوکھر کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کے بعد مذمتی بیانات تو آتے ہیں، لیکن جب ایسے ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے تو اُن پر پھول برسائے جاتے ہیں۔ مصطفی کھوکھر کہتے ہیں کہ حال ہی میں حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ کیا اور گھٹنے ٹیک دیے اور کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس سمجھوتے میں کیا طے ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فیصلہ ہوا ہے کہ 23 مارچ کو اسلام آباد پہنچنا ہے
اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ آئین اور قانون کی عمل داری کے بغیر ریاست کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اُن کے بقول پاکستان میں جن عناصر نے ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھائے، عام شہریوں، معصوم بچوں اور فوجیوں کو شہید کیا، آج ریاست اُن کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کر رہی ہے۔ ان کے بقول 80 ہزار پاکستانیوں کے قاتل، اور ہمارے سٹرٹیجک اثاثوں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ امن معاہدے کر کے اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ شدت پسندی ختم ہو جائے گی، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ جو جتنا ظالم ہے وہ اتنا ہی طاقت ور ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ آج اگر ریاست کا عام شہری محفوظ نہیں تو پھر کل کو ریاست بھی نشانے پر ہو گی۔ لہذٰا ریاست کو بچانا ہے تو پھر ہمیں خواب غفلت سے جاگنا ہو گا۔