وفاقی ٹیکس محتسب کا ایف بی آر کی کارکردگی پر عدم اطمینان

وفاقی ٹیکس محتسب نے نان کسٹم پیڈ (این سی پی) گاڑیوں کی ضبطی اور نیلامی میں بے ضابطگیوں کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہےکہ گاڑیوں کی ضبطی کے معاملےمیں کسٹم کلیکٹوریٹ نے نہ کسی ملزم کو نامزد کیا، نہ کسی کو سزا دی اور نہ ہی پچھلے دس سالوں میں کسی کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے وفاقی ٹیکس محتسب کو جو رپورٹ جمع کرائی گئی ہے اس کے مطابق جولائی 2013 سے لے کر جنوری 2019 تک تمام کلیکٹوریٹس نے 3299 گاڑیاں ضبط کیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی گئی۔ اس حوالے سے وفاقی ٹیکس محتسب نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہر سال نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ضبطی کی بڑھتی تعداد کسٹم حکام کی اسمگلنگ روکنے کی کارکردگی کے دعوے کی نفی کرتی ہے۔ اگر اسمگلنگ روکنے کےلیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے گئے ہوتے تو یہ تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہوتی۔
وفاقی ٹیکس محتسب کی رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ برس میں 1662گاڑیوں کی نیلامی کی گئیں۔ جن میں 1004 گاڑیوں کی نیلامی ایم سی سی (پریونٹیو) کوئٹہ نے کی۔ جس میں سے 538 گاڑیوں کو پہلی ہی نیلامی میں بیچ دیا گیا اور کچھ تو متعین شدہ قیمت سے بھی کم پر نیلام کی گئیں جو کہ کسٹم جنرل آرڈر 12 (2002) کے پیراگراف 7 میں دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔
26گاڑیاں جو سنگل آرڈر ان اوریجینل کے تحت ضبط ہوئیں، ضبطی آرڈر کے اجراء سے تین مہینے پہلے متعین شدہ قیمت کے 75 سے 80 فیصد قیمت پر پہلی ہی نیلامی میں فروخت کی گئیں اور جن افراد سے یہ گاڑیاں پکڑی گئیں ان کے نام ہی نہیں لکھے گئے اور نہ کسی کے خلاف کاروائی کی گئی۔ 621 گاڑیوں کی ضبطی کی نہ تاریخ معلوم ہے اور جن کو نیلام کی گئیں نہ ہی ان کے شناختی کارڈ نمبر درج ہیں۔ ایف ٹی او رپورٹ کے مطابق ٹیکس انتظامیہ نے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے متضاد دفعات یعنی کسٹم رول 2001 کے باب 5 اور سی جی او 12(2001) کے باب 4 میں پیراگراف 7 میں ایف بی آر کی دی گئی ہدایات کو استعمال کیا۔
پچھلے دس سال کے ڈیٹا کو دیکھا جائے تو رینیو ٹارگٹ کو یقینی بنانے، موسمی حالات، جگہ کی کمی، گاڑیوں کو تیز ی سے ڈسپوز آف کرنے اورسکیورٹی کی صورت حال جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر کلکٹر آفس کے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کیا گیا۔
وفاقی ٹیکس محتسب کی پریس ریلیز کے مطابق ایف بی آر کو سفارش کی گئی ہے کہ متضاد قانونی نکات کا جائزہ لے کر قانون میں اصلاحات کی جائیں۔ معاملات کو شفاف رکھنے کےلیے ایف بی آر ماڈل آکشن رولز تجویز کرے۔ ایف بی آر متعلقہ اتھاریٹیز کےلیے یہ لازمی قرار دے کہ تمام نیلامیوں کے شیڈول جو ہر لحاظ سے مکمل ہوں، ایف بی آر کی ویب سائٹ پر رکھے جائیں۔ ایف بی آر، ڈاریکٹوریٹ جنرل آف انٹرنل آڈٹ (کسٹمز)کو ہدایات دے کہ قانونی سقم کی نشاندہی کےلیے پچھلے تین برس کی نیلامیوں کا مکمل آڈٹ کرے اور قانون کی اصلاح کےلیے اپنی سفارشات پیش کرے۔
این سی پی گاڑیاں عام طور پر افغانستان کے راستے پاکستان پہنچتی ہیں اور بلوچستان، خیبر پختونخوا کے سابق قبائلی علاقوں، مالاکنڈ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں عام چلائی جاتی ہیں۔
یہ گاڑیاں بےحد سستی ہوتی ہیں اور جس رجسٹرڈ گاڑی کی مارکیٹ میں قیمت 20 لاکھ ہوتی ہے، وہی این سی پی گاڑی پانچ چھ لاکھ کی بھی مل جاتی ہے۔
اس کا ایک فائدہ تو یہی ہے کہ ان علاقوں کے لوگ کم قیمت میں اچھی گاڑیاں چلانے کے اہل ہو جاتے ہیں، تاہم نقصان یہ ہے کہ وہ یہ گاڑیاں اپنے علاقوں سے باہر نہیں لے جا سکتے۔
حکومت نے 2012 میں این سی پی گاڑیوں کےلیے ایمنسٹی اسکیم شروع کی تھی جس کے تحت 90 ہزار گاڑیوں کی رجسٹریشن کروائی گئی تھی۔ کچھ عرصے سے خبریں آرہی ہیں کہ شاید حکومت ایک اور ایمنسٹی اسکیم شروع کر دے، تاہم ابھی تک اس کا اعلان نہیں ہوا۔