صحافیوں کو ٹھوکنے والے لڑکیوں کے بھائی کون ہیں؟

پاکستانی میڈیا سے وابستہ جو بھی صحافی طے شدہ نظریاتی لائن سے ہٹ کر سچی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور متنازع ریاستی پالسییوں پر کھل کر سوال اٹھاتے ہیں وہی اکثر کسی لڑکی کو تنگ کرنے کے الزام پر اس کے غیرت مند سجیلے بھائیوں کے ہاتھوں پٹتے، اغوا یا قتل ہوتے ہیں۔ کچھ دیگر صحافی بھی اسی چھیڑ خانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو سیر سپاٹے کے لیے لڑکی کے بھائی اچانک اٹھا کر شمالی علاقہ جات کی سیر کروانے لے جاتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار وسعت اللہ خان نے اپنے تازہ تجزیے میں کیا ہے۔
خیال رہے کہ حالیہ مہینوں میں اسلام آباد کے جن چند صحافیوں پر تشدد کیا گیا ہے یا فائرنگ کہ گئی ہے، ان کے حوالے سے خفیہ اداروں سے وابستہ جنرل رانی کے رشتے دار یہ پروپیگنڈہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان صحافیوں کو لڑکیوں کے بھائیوں نے نشانہ بنایا ہے۔ تاہم تشدد اور حملوں کا نشانہ بننے والے صحافی کا اصرار ہے کہ انکے ساتھ وارداتیں لڑکی کے بھائی نے نہیں بلکہ بھائی لوگوں نے ڈالی ہیں۔ وسعت لکھتے ہیں کہ فی زمانہ تو اس پر بھی شکر کرنا بنتا ہے کہ حامد میر، مطیع اللہ جان، ابصار عالم، اسد علی طور اور اس طرح کے دیگر صحافی اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور چار اہم لوگ اُنھیں جانتے بھی ہیں۔ اگر یہی لوگ مالاکنڈ، جنوبی خیبر پختونخوا، سابق قبائلی علاقہ جات، جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، کشمیر و گلگت بلتستان میں کام کر رہے ہوتے تو کیا ان پر حملوں یا اغوا یا تشدد کا صحافی تنظیمیں، سرکاریں اور حزبِ اختلاف کی صفِ اول کی قیادت اتنی ہی شد و مد سے نوٹس لیتے؟
وسعت سوال کرتے ہیں کہ آپ میں سے کتنوں نے صحافی اجے للوانی کا نام سنا ہے جسے ڈھائی ماہ قبل سکھر کے نواحی قصبے صالح پٹ میں گولیاں مار دی گئیں۔ اور یہ عزیز میمن کون تھا جسے گذشتہ برس نوشہرو فیروز میں قتل کر دیا گیا۔ بلوچستان کے دور دراز شہروں میں کون سا صحافی کب اٹھا، کب مرا یا واپس آیا، کیا کوئی قومی و صوبائی صحافتی تنظیم ان بدقسمت ہم پیشہ دوستوں کے ناموں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتی ہے؟
اچھی بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی پہلا صوبائی منتخب ادارہ بن گئی جس نے صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے تحفظ کے قانون مجریہ 2021 کی منظوری دے دی۔ اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا، صحافیوں کو خوفزدہ کرنے یا تشدد کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا، صحافی دورانِ تفتیش کسی بھی خبر کا ذریعہ بتانے کے پابند نہ ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔
خیبر پختونخوا میں بھی صحافیوں کے تحفظ کا قانون بنانے پر غور ہو رہا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں بھی ایسا ہی ایک قانونی بل زیرِ غور ہے۔حکومتیں تو قانون سازی کر کے اپنا فرض پورا کر دیں گی۔ لیکن وسعت کہتے ہیں کہ اب یہ صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کا بار خود اٹھائی کیونکہ حکومتوں کو اور بھی دیگر ضروری کام درپیش ہیں۔ اگرچہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے قانون سازی پہلا ضروری مرحلہ ہے، مگر قانون کا اطلاق اُن ہی پر ہو سکتا ہے جو خود کو آئین و قانون کے دائرے کا پابند تصور کریں۔ بزُعمِ خود قانون سے ماورا شخصیات، اداروں اور ریاست کے اندر اپنے تئیں ریاست بننے والوں کو کس طرح قانون کی لگام ڈالی جائے؟ یہ ہے موجودہ پاکستان کا اصل مسئلہ۔
وسعتاللہ کے مطابق اس سے بھی کہیں سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ایسی ماورائے قانون شخصیات و اداروں کے اقدامات کی وکالت اکثر وہی سرکاری و ریاستی عہدے دار کرتے ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری ہی ریاستی رٹ کے نفاز کو بلا امتیاز یقینی بنانا ہے۔رٹ نافذ کرنے اور مست بیل کو سینگوں سے پکڑنے کے لیے دل کے ساتھ ساتھ دیگر اعضائے رئیسہ و غیر رئیسہ میں بھی دم ہونا چاہیے، مگر یہاں تو نام نہاد منتخب سرکار کو اکسیجن بھی سلیکٹرز سے مشروط ادھاری سلنڈر میں فراہم ہوتی ہے۔
وسعت اللہ خان لکھتے ہیں کہ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جس طرح اس ملک میں اقلیتی گھرانوں کی کچھ لڑکیاں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے اپنی مرضی سے اغوا ہو کر شادی کر لیتی ہیں، اقلیتی لڑکے ایسا کیوں نہیں کر پاتے؟ جو صحافی طے شدہ نظریاتی لائن سے ہٹ کر اپنی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور متنازع پالسییوں یا اقدامات پر کھل کر سوال اٹھاتے ہیں صرف وہی کسی لڑکی کو تنگ کرنے کے عوض اس کے غیرت مند بھائیوں سے کیوں پٹتے، اغوا یا قتل ہوتے ہیں یا پھر سیر سپاٹے کے لیے افغانستان و شمالی علاقہ جات میں کچھ عرصے کے لیے کیوں غائب ہو جاتے ہیں۔ ان کی لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ کہیں جانے سے پہلے والدین تک کو فون نہیں کرتے۔ یوں ان کے ورثا ان کی واپسی تک طرح طرح کے اداروں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پالتے رہتے ہیں اور پھر ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کام وزرا اور محبِ وطن صحافیوں کو کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس نے صحافی اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہونے والے حملے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہہ وزارت اطلاعات اور فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے درمیان رابطہ ہوا جس میں آئی ایس آئی نے صحافی و ولاگر اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ حملے اور مبینہ تشدد سے مکمل لاتعلقی ظاہر کی ہے۔‘ یاد رہے کہ 25 مئی کی شب کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں تین نامعلوم افراد نے صحافی و ولاگر اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہو کر اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا تھا۔
اس حملے کے بعد اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ان پر تشدد کرنے والے افراد مسلح تھے اور انھیں پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا گیا اور انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تشدد کرنے والے نامعلوم افراد نے اپنا تعلق پاکستان کی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے ظاہر کیا تھا۔واضح رہے کہ اسد طور پر ہونے والے حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔
وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ایسے الزامات کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت آئی ایس آئی کو ففتھ جنریشن وار فیئر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آئی ایس آئی سمجھتی ہے کہ جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی شکلیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں تو پھر تفتیش آگے بڑھنی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ اور اس سلسلے میں آئی ایس آئی تفتیشی اداروں سے مکمل تعاون کرے گی۔‘
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد طور پر حملہ کرنے والے نامعلوم افراد تو ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے لیکن اس حملے کی مذمت کرنے والے سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر لڑکی کے بھائیوں کے غصے کا شکار ہو گے ہیں۔ تاہم حامد میر کے سخت مزاج کو دیکھتے ہوئے لڑکی کے بھائیوں نے ان پر دوبارہ حملے کی ہمت تو نہیں کی لیکن جیو کی انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر انہیں ان کے 20 برس پرانے پروگرام کیپٹل ٹاک سے علیحدہ کروا دیا ہے۔

Back to top button