صدارتی نظام کے نفاذ کے لئے بار بار پٹیشنز کون کروا رہا ہے؟


پاکستان میں چند ماہ قبل شروع ہونے والی صدارتی نظام کی بحث ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کیونکہ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے مسلسل آئینی درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی پٹیشنز کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ کارفرما ہیں۔
ضیا اور مشرف ادوار کے ریفرنڈم کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ملک سے پارلیمانی نظام کا خاتمہ کرکے صدارتی نظام لانے کے لیے ایک اور ڈھونگی ریفرنڈم کروانے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور کیا اسی مقصد کے تحت سپریم کورٹ میں صدارتی نظام حکومت کے حوالے سے ریفرنڈم کروانے کے لیے پے دے پے پٹیشنز دائر کی جا رہی ہیں؟ ملک میں صدارتی طرزِ حکومت کو متعارف کروانے کے لیے فوری طور پر ریفرنڈم کے انعقاد کے مطالبے کے لیے تین ماہ میں سپریم کورٹ میں تیسری درخواست دائر کردی گئی۔ یہ درخواست امریکا میں مقیم پاکستانی حفیظ الرحمٰن نے اپنے وکیل خالد عباس خان کے ذریعے دائر کی ہے اور اس میں دلیل دی گئی کہ پاکستانی عوام کو سیاسی انصاف نہیں مل رہا ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں معاشی اور معاشرتی انصاف سے بھی انکار کیا جا رہا ہے۔ اپنی درخواست میں حفیظ الرحمٰن نے دلیل دی کہ 1947 سے پاکستان کے عوام کو سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے کیونکہ وہ ان سیاسی جماعتوں کے زیر اقتدار تھے جنہیں مقبول ووٹوں کا 51 فیصد سے بھی کم ووٹ ملا تھا۔انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر برسراقتدار پارٹیوں نے 2008، 2013 اور 2018 میں بالترتیب 25.6 فیصد، 32.7 فیصد اور 31.8 فیصد مقبول ووٹ حاصل کیے تھے۔درخواست میں کہا گیا کہ یہ جمہوریت کے اکثریتی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا کہ پارلیمانی نظام نے پاکستان جیسے معاشرے، جو زبان اور مذہبی فرقوں میں تقسیم ہے، میں پولرائزیشن کی حوصلہ افزائی کی۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تقریبا 25 فیصد خصوصی نشستیں قانونی کرپشن اور پاکستانی عوام کے ساتھ ناانصافی ہیں، اس طرح پاکستانی عوام کو سیاسی انصاف سے انکار کیا گیا ہے جبکہ صدارتی نظام میں پارلیمنٹ میں کوئی مخصوص نشستیں نہیں ہوں گی۔
صدارتی نظام کے حق میں یکے بعد دیگرے پٹیشنز دائر ہونے کے بعد سنجیدہ سیاسی حلقوں میں جاری اس بحث میں اب تیزی آ گئی ہے کہ کیا پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ ملک میں صدارتی طرز کا نظام حکومت لانے کا اصولی فیصلہ کر چکی ہے اور کیا وہی اس طرح کی پٹیشنز کے پیچھے ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں طاقتور خفیہ ہاتھ آئینی پٹیشنز کے ذریعے سپریم کورٹ سے ایک ایسا ریفرنڈم کروانے کا حکم لینے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام حکومت کے حق میں فیصلہ آ سکے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں کم از کم تین ایسی آئینی پٹیشنز دائر کی گئی ہیں جن میں سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم عمران خان کو ہدایت کرے کہ وہ ایک ملک میں ایک ریفرنڈم کروائیں جس میں عوام سے یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا ملکی مسائل کا حل موجودہ پارلیمانی نظام حکومت میں ہے یا ایک ایسے صدارتی نظام حکومت میں ہے جہاں صدر براہ راست منتخب ہو اور ممبران قومی اسمبلی اسے بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔صدارتی نظام کی حمایت میں سپریم کورٹ میں پٹیشنز دائر کرنے والے نامعلوم افراد کا وہی پرانا اور بھونڈا موقف ہے کہ فوجی صدور کے دور حکومت میں پاکستان نے جمہوری ادوار سے زیادہ ترقی کی لہذا ثابت ہوا کہ صدارتی نظام حکومت پارلیمانی نظام حکومت سے زیادہ بہتر ہے۔ تاہم جب ایسے لوگوں سے آمرانہ ادوار میں پاکستان کی ترقی کے حوالے سے ٹھوس شواہد مانگے جائیں تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ ملک میں ایک صدارتی نظام حکومت ہو تاکہ ملک کو ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف سٹائل میں چلایا جا سکے۔
دوسری طرف پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ملک کو صدارتی نظام حکومت سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوا البتہ اس نظام کی وجہ سے پاکستان ایک فوجی جرنیل کی زیر صدارت دو لخت ضرور ہوا۔ قیام پاکستان سے اب تک کی سات دہائیوں کے دوران مجموعی طور پر پاکستان میں بارہ صدور بنے جن میں سے چھ صدور فوجی جبکہ چھ سویلین تھے۔ تاہم صدارتی نظام کو چھ فوجی اور دو سویلین سمیت آٹھ صدور نے اپنایا، دو صدور ذوالفقار علی بھٹو اور آصف زرداری نے پارلیمانی نظام کو مضبو ط کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے۔ بھٹو نے پاکستان کو 1973 کا پہلا متفقہ پارلیمانی آئین دیا جب کہ آصف زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے تمام صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض کر دیے جو ماضی میں ضیاء الحق نے آئینی ترمیم کے ذریعے غضب کر لیے تھے۔
تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا قیام پاکستان سے اب تک ملک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کی کشمکش جاری ہے۔ اب سپریم کورٹ میں جو تازہ پٹیشنز دائر ہوئی ہیں ان کے پیچھے بھی غالباً یہی محرک کارفرما ہے کہ صدارتی نظام حکومت کے تحت ملک میں ون مین شو بحال کیا جائے۔ تاہم صدارتی نظام حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں فرد واحد اختیارات کا منبع ہوتا ہے اور صدر کسی بھی شخص کو کابینہ میں شامل کر سکتا ہے جب کہ پارلیمانی سسٹم میں صرف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا شخص ہی کابینہ کا رکن بن سکتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں جب بھی اقتدار کا منبع فرد واحد کو بنایا گیا، وہیں ملک و قوم کو نقصان پہنچا۔دوسری طرف آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئین پارلیمانی طرز کا ہے اور پارلیمانی نظام حکومت کی بات کرتا ہے، صدارتی نظام لانے کے لیے اسے بدلنا پڑے گا اور آئین بدلنے کے لئے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جو موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ لہذا دو ہی صورتوں میں صدارتی نظام آ سکتا ہے۔ پہلی یہ کہ سپریم کورٹ صدارتی نظام حکومت لانے کے سوال پر ایک ریفرنڈم کروانے کا حکم دے جسکے نتیجے میں ہاں کا اکثریتی ووٹ آئین کو تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ دے دے۔ اسی مقصد کے لیے اب سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشنز دائر کی جا رہی ہیں اور ریفرنڈم کا راستہ اپنانے کی معصوم خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تاہم اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر دوسرا اور آخری وہی پرانا راستہ ہے کہ فوج سب کو برخاست کر کے مارشل لاءلگا دے اور آئین معطل کر کے صدارتی نظام نافذ کر دے۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کی جگہ صدارتی نظام حکومت لانے کی سازش میں تیزی آنے کے بعد سپریم کورٹ میں حالیہ دنوں میں تین آئینی درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔ ایک نام نہاد ڈمی سیاسی جماعت ہم عوام پاکستان کے چیئرمین طاہر عزیز خان کی جانب سے دائر کی گئی ٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے کہا گیا کہ وہ وزیراعظم پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنڈم کروانے کا حکم دے اور عوام سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اپنے اور ملک کی بہتری کی خاطر پاکستان میں صدارتی نظام حکومت لانے کے حق میں ہیں یا نہیں؟پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے علاوہ ترکی اور ایران جیسے مسلم ممالک میں بھی صدارتی نظام رائج ہے لہذا پاکستان میں بھی پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لایا جائے۔ اسی طرح کی ایک اور پٹیشن ایک سول انجینئر نے سپریم کورٹ میں دائر کی ہے جس میں کہا گیا یے اس سوال پر کہ کیا پاکستانی عوام موجودہ جعلی پارلیمانی نظام کہ جگہ صدارتی طرز کا نظام چاہتے ہیں، فوری رائے شماری ہونی چاہیے۔ اس درخواست میں بھی وزیر اعظم عمران خان اور دیگر متعلقہ فریقین سے اس معاملے پر آئین کے آرٹیکل 48 (6) کے تحت اس معاملے پر ریفرنڈم کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ جانا جا سکے کہ آیا عوام پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت سے مطمئن ہیں یا صدارتی نظام حکومت چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستانی آئین میں کسی بھی قومی اہمیت کے مسئلہ پر عوام کی رائے جاننے کے لئے ہاں یا ناں کی بنیاد پر ریفرنڈم کروانے کی شق موجود ہے جسے ماضی میں جنرل ضیاء الحق نے اپنے شخصی اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔ جنرل ضیاء کی جانب سے کروائے گئے ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں یا نہیں اور اگر ان کا جواب ہاں میں ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ جنرل ضیا کو پانچ برس کے لیے صدر منتخب کر رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت نے جنرل ضیاء کی جانب سے اسلام کے نام پر اپنے آمرانہ اقتدار کو طول دینے کی کوشش ناکام بنانے کے لیے اس ریفرنڈم میں "نہ” کی صورت میں جواب دیا لیکن پھر بھی 1984 میں ہونے والے اس ڈھونگ میں ضیا نے تاریخ ساز دھاندلی کے زور پر 98 فیصد ووٹ حاصل کیے اور کامیاب قرار پایا۔ اس طرح ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بھی آئین کی بحالی اور انتخابات سے پہلے 30 اپریل 2002 کو ایک ڈھونگی ریفرنڈم کے ذریعے خود کو پانچ برس کے لیے صدر پاکستان منتخب کروایا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button