ضمنی الیکشن کے نتائج نواز کی سیاست دفن کریں گے یا کپتان کی؟
17 جولائی کو پنجاب کے 14 ضلعوں کی 20 صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن نواز لیگ اور تحریک انصاف کے لیے سیاسی زندگی اور موت کا کھیل بن چکے ہیں کیونکہ ان انتخابات کے نتائج 2023 کے الیکشن نتائج پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ اس لیے ایک جانب سابق وزیراعظم عمران خان خود ہر حلقے میں پہنچ کر انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں تو دوسری جانب مریم نواز شریف انکا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتری ہوئی ہیں۔
پنجاب کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ان کے نتائج دونوں پارٹیوں کی مستقبل کی سیاست پر اثر انداز ہوں گے۔ دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کا اندازہ بھی ان ضمنی انتخابات میں ہو جائے گا۔ انکے مطابق لاہور کے چاروں حلقوں سمیت پنجاب کے 20 حلقے تحریک انصاف اور نواز لیگ کے لیے زندگی اور موت کا کھیل بن چکے ہیں لیکن زیادہ بڑا مقابلہ لاہور کی سیٹوں پر ہو گا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی الیکشن تین زاویوں سے سیاسی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔ اول تو یہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا فیصلہ کریں گے جبکہ دوئم ان انتخابات کے نتائج پنجاب کی حد تک دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نون اور تحریکِ انصاف کی عوامی مقبولیت کو بھی واضح کریں گے۔ ان انتخابات کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ ان کے نتائج آئندہ ہونے والے عام انتخابات کی سمت کا بھی تعین کریں گے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنا چاہتی ہیں اور الیکشن جیتنے کے لئے پورا زور لگا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ اسوقت پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف کی کُل نشستیں 163 ہیں جبکہ 10 نشستیں ق لیگ کی ہیں۔ یوں ان دونوں جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 173 بنتی ہے۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد یعنی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، چار آزاد ارکان اور راہ حق پارٹی کے کل ارکان کی تعداد 177 بنتی ہے۔ 371 اراکین کے مکمل ایوان میں وزیرِ اعلیٰ کو 186 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ یوں موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ نون کو پنجاب کے ضمنی الیکشن میں 9 جبکہ پی ٹی آئی کو 13 نشستیں جیتنا ہوں گی۔ اگر حکومتی اتحاد میں سے چار آزاد اور راہِ حق پارٹی کی ایک نشست نکال دیں تو یہ تعداد 173 بنتی ہے۔ یوں مسلم لیگ ن کے لیے بھی 13 سیٹیں جیتنا ضروری ہیں۔ لیکن نون لیگ کی اتحادی جماعتوں کا اس کا ساتھ چھوڑنے کا کوئی امکان نہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کے آزاد رکن چودھری نثار علی خان کی جانب سے فی الحال کسی بھی اتحاد کی اعلانیہ حمایت نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ 2018 کے الیکشن میں پنجاب کے اِن 20 حلقوں میں آزاد اُمںیدواروں نے 32 فیصد، تحریکِ انصاف نے بھی 32 فیصد، مسلم لیگ ن نے 25 فیصد اور دیگر جماعتوں نے 5 فیصد ووٹ لیے تھے۔ اِن 20 حلقوں میں سے 10 پر آزاد جبکہ 10 پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اب ان امیدواروں میں سے لاہور کے حلقہ پی پی 158 میں علیم خان الیکشن نہیں لڑ رہے جہاں سے نون لیگ کے 2018 کے اُمیدوار رانا احسن شرافت میدان میں ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 288 میں محسن عطا کھوسہ الیکشن نہیں لڑ رہے جہاں سے عبدالقادر کھوسہ میدان میں ہیں۔ خوشاب کی سیٹ پی پی 83 میں ملک غلام رسول سنگھا کی جگہ اُن کے بھائی امیر حیدر سنگھا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ باقی تمام امیدوار وہی ہیں لیکن اس بار وہ پہ ٹی آئی کی بجائے مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جن 10 حلقوں میں آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے، اُن میں راولپنڈی کے حلقہ پی پی 7 پر نون لیگ کے اُمیدوار دوسرے جبکہ پی ٹی آئی کے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ خوشاب کے حلقہ پی پی 83 پر نون لیگ کے اُمیدوار دوسرے جبکہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار پانچویں نمبر پر رہے۔
بھکر کے حلقہ پی پی 90 پر نون لیگ دوسرے جبکہ پی ٹی آئی کا تیسرا نمبر رہا تھا۔ فیصل آباد کے حلقہ پی پی 97 پر پی ٹی آئی اُمیدوار دوسرے جبکہ نون لیگ کے امیدوار تیسرے نمبر پر تھے۔
جھنگ کے حلقہ پی پی 125 میں پی ٹی آئی کا دوسرا جبکہ نون لیگ کا کوئی اُمیدوار نہیں تھا۔ جھنگ کے حلقہ پی پی 127 میں پی ٹی آئی اُمیدوار دوسرے جبکہ ن لیگ کا بارھواں نمبر رہا تھا۔
ملتان کے حلقہ پی پی217 پر پی ٹی آئی اُمیدوار دوسرے جبکہ ن لیگ تیسرے نمبر پر تھی۔ بہاولنگر کے حلقہ پی پی 237 پر پی ٹی آئی دوسرے جبکہ نون لیگ کا کوئی اُمیدوار نہیں تھا۔ لیہ کے حلقہ پی پی 282 پر پی ٹی آئی کا اُمیدوار دوسرے جبکہ نون لیگ کا تیسرے نمبر پر رہا اور ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 288 پر پی ٹی آئی کا اُمیدوار دوسرے جبکہ ن لیگ کا اُمیدوار کوئی نہیں تھا۔ باقی 10 حلقوں میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ 20 حلقے ایک طرح سے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ حلقے لاہور، شیخو پورہ، فیصل آباد، ساہیوال، راولپنڈی، خوشاب، جھنگ، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، لودھراں، بہاولنگر اور ڈی جی خان کے ہیں۔ یوں ایک لحاظ سے پنجاب کے ہر حصہ میں الیکشن ہوں گے اور اگر دونوں جماعتیں اپنا طے کردہ ہدف حاصل نہ کر سکیں تو دونوں کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ برداشت کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔ اگر نون لیگ 9 سیٹیں حاصل نہیں کرتی تو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ برقرار نہیں رہ پائے گی، ساتھ ہی اگلے انتخابات میں پنجاب کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسی طرح اگر پی ٹی آئی اپنے دعوؤں کے مطابق نتائج سے محروم رہتی ہے تو عمران خان کے بیانیے کو نقصان پہنچنے کے ساتھ جلد الیکشن کے انعقاد کی کوشش بھی لاحاصل ٹھہرے گی اور پنجاب پر گرفت بھی کمزور پڑ جائے گی۔
دَرحقیقت ان ضمنی انتخابات کے ذریعے پنجاب پر سیاسی تسلط کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران خان اور مریم نواز اِن حلقوں میں زور و شور سے جلسے کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان حلقوں کے اضلاع کی دونوں طرف کی مقامی قیادت اپنی پارٹی کے اُمیدوار کی انتخابی مہم میں بھرپور شمولیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ نون لیگ کی جانب سے سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت خواجہ سلمان رفیق اور اویس لغاری اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر انتخابی مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے اُمیدوار عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی بیرونی و اندرونی ’سازش‘ کے ساتھ ساتھ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور پیٹرول و ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کو موضوع بنائے ہوئے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے اُمیدوار ’سابق حکومت کی نااہلی‘ اور ’سخت فیصلے کر رہے ہیں مگر جلد اچھے دِن آئیں گے‘ کا موضوع اپنائے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس جماعت کے بیانیے کو پذیرائی بخشتے ہیں؟