عارف علوی استعفیٰ دیں گے یا مواخذے سے جائیں گے؟
نئے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ایوان صدر میں ملاقات کے بعد صدر عارف علوی کے سخت رویے میں تبدیلی تو آ گئی ہے اور انہوں نے نئے وزرا سے حلف بھی لے لیا ہے لیکن عمران مخالف نئی حکومت کا علوی کے ساتھ چلنا ممکن نظر نہیں آتا لہٰذا اگر وہ خود مستعفی نہیں ہوں گے تو انہیں بھی پرویز مشرف اور فاروق لغاری کی طرح مواخذے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ مشرف اور لغاری دونوں نے مواخذے پر ووٹنگ سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ صدر عارف علوی نئی حکومت کے لیے مسلسل رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے لہٰذا وزیراعظم شہباز شریف نے خود جا کر ان سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد صدر علوی نے نئے وفاقی وزرا سے حلف تو لے لیا ہے لیکن دیگر کئی معاملات پر ان کی جانب سے ڈیڈ لاک برقرار ہے، لہٰذا علوی اور شہباز حکومت کا لمبے عرصے تک اکٹھا چلنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا عارف علوی استعفیٰ دیں گے یا مواخذے کا سامنا کریں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا نئی حکومت کے پاس اتنی عددی اکثریت موجود ہے کہ وہ مشرف اور لغاری کی طرف علوی کو بھی استعفیٰ دینے پر مجبور کر دے؟
صدر کے مواخذے سے متعلق آئین پاکستان کے آرٹیکل 47 میں تمام تفصیلات دی گئی ہیں جن کے مطابق جسمانی یا دماغی نااہلیت، دستور کی خلاف ورزی یا سنگین بد عنوانی کی بنیاد پر صدر کو عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔آرٹیکل کے تحت کسی بھی ایوان کے کم از کم نصف ارکان صدر کی برطرفی کے لیے قرارداد سے متعلق نوٹس دیں گے جس میں صدر کے خلاف الزامات کی وضاحت درج ہونا ضروری ہے۔
اگر چیئرمین سینیٹ کو نوٹس موصول ہوتا ہے تو وہ سپیکر کو بھیجا جائے گا اور سپیکر کو نوٹس موصول ہونے کی صورت میں وہ تین دن کےاندر نوٹس کی کاپی صدر کو بھجوائیں گے۔
سپیکر سات دن کے بعد اور 14 دن سے پہلے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانے کا پابند ہوگا۔ اجلاس میں صدر پر لگائے گئے الزامات کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔ صدر کو اجلاس میں شرکت کرنے یا نمائندہ بھیجنے کا حق حاصل ہے۔
اگر اجلاس میں پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت نے قرارداد منظور کر لی تو صدر کو فورا ًاپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا۔
صدر کے خلاف چارج شیٹ
اقتدار کا حصہ بننے والی سیاسی جماعتیں جو پہلے حزب اختلاف میں شامل تھیں صدر عارف علوی سے متعلق گزشتہ چار سالوں سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہیں اور یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ صدر کے خلاف چارج شیٹ بہت مضبوط ہے۔
موجودہ حکمراں جماعت یہ دعویٰ بھی کرتی رہی ہے کہ صدر علوی نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آرڈیننس کا اجرا کر کے پارلیمان کو بے توقیر کیا تھا۔ صدر پر حالیہ دنوں میں نئے وزیراعظم کا حلف نہ لینے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ’صدر کی جانب سے نو منتخب وزیر اعظم سے حلف نہ لینا، اس کی وجہ بیماری بتا کر اسے ثابت نہ کر پانا، چارج شیٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ خود مختار اداروں میں کئی ایسی تقرریاں کیں اور آرڈیننس پاس کیے جو عدالت کی جانب سے کالعدم قرار دیئےگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے خود کہا ریفرنس فائل کرنا ایک غلطی تھی تو یہاں صدر نے کیوں اپنے عمل کے حوالے سے نہیں سوچا؟‘
اس معاملے پر سابق صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکریٹری سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ’صدر کا عہدہ کسی حکومت کا نہیں ریاست کا سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ آئین کے مطابق صدر کا اپنے ذاتی مفادات کو سرکاری کام پر حاوی ہونے دینا سنگین بد عنوانی ہے۔ مس کنڈکٹ یہیں سے شروع ہو جاتا ہے جب حلف کی خلاف ورزی کی جائے۔ اگر کل صدر علوی عمران خان کے مشورے کے پابند تھے تو آج شہباز شریف کے مشورے کی پابندی نہ کرنے کی وجہ انہیں بتانی چاہیے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’جب 2018 میں عمران خان اقتدار میں آئے تو اس وقت کے صدر ممنون حسین نے نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں ایک پیغام بھیجا کہ حلف برداری ہے تو انہیں اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے، جس کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ آئین کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔ جس کے بعد انہوں نے عمران سے حلف لیا تھا۔‘
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’صدر مملکت کا وزیراعظم اور کابینہ سے حلف نہ لینا بدنیتی پر مبنی ہے۔ صدر حلف لینے سے انکار نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے بیماری کا عذر پیش کیا اور بعد میں کابینہ سے حلف نہ لینے کی کوئی وجہ تک نہیں بتائی گئی۔‘ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان کہتے ہیں ’صدر کے خلاف کوئی چارج شیٹ نہیں ہے، ان پر لگائے جانے والے الزامات چارج شیٹ نہیں ہوتے۔ صدر کے خلاف الزام بھی نہیں ہے، وہ ایک پروفیشنل آدمی ہیں۔‘
صدر مملکت کی جانب سے مواخذے کے بیانات پر فی الحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت صدر کا مواخذہ ممکن ہے؟ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے 123 اراکین کے استعفوں کے بعد اس وقت صدر کا مواخذہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت ہونا ضروری ہے۔ حکومت اور اتحادی جماعتیں نمبر گیم پوری کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہیں۔ حکومت کا دعوی ٰہے کہ تحریک انصاف کے بعض ارکان نے دباؤ میں آ کر استعفیٰ دیا ہے۔ ایوان بالا یا سینیٹ میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی 27 اراکین کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ اپوزیشن کو دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مجموعی اراکین کی تعداد 442 ہے جن میں قومی اسمبلی کے 342 اور سینیٹ کے 100 ارکان شامل ہیں۔ صدر کے مواخذے کے لیے حکمران اتحاد کو ان میں سے کم از کم 295 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔
راجہ پرویز اشرف نے سپیکر کا حلف اٹھانے کے فوری بعد سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی جانب سے منظور کیے گئے 123 اراکین کے استعفوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی رولنگ دی۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق منظور کیے گئے استعفے ڈی سیل کر دیئے گئے ہیں، جلد تمام ارکان کو نوٹس جاری کر کے سپیکر کےسامنے پیش ہونے کی ہدایت کی جائے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے بتایا ہے کہ وہ تمام استعفوں کا جائزہ خود لیں گے، ارکان سے پوچھا جائےگا کہ انہوں نے کسی دبائو میں آ کر استعفے تو نہیں دیئے کیوں کہ تمام استعفے ہاتھ سے لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ سپیکر نے بتایا ہے کہ استعفوں کی تصدیق کا عمل جلد شروع کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نمبر گیم پوری کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر پی ٹی آئی کے منحرف اراکین مواخذے کا ووٹ دیتے ہیں تو ان پر کوئی آئینی قدغن نہیں لگ سکتی۔
آئینی و پارلیمانی ماہرین کے مطابق صدر کا مواخذہ اس وقت مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ صدر کے مواخذے کو ممکن بنانے کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ ایک یا تو مستعفی ہونے والے 123 اراکین میں سے 50 سے زائد اراکین اپنے استعفے واپس لے کر حکومت کی حمایت کا اعلان کریں یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ سپیکر تمام استعفے منظور کرے اور 123 حلقوں پر ضمنی الیکشن کروا کر حکومت اپنے امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنا کر نمبر گیم مکمل کرے۔ صدر کے مواخذہ کے لیے اس وقت کسی مفاہمت اور سیاسی جوڑ توڑ کا کوئی آپشن نہیں بلکہ سارا دار و مدار نمبرز پر ہے۔