عدالتی حکم کے باوجود فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے


اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر نہ کرنے کے حکم کے باوجود اس کیس کا فیصلہ اگلے چند ہفتوں میں آنے کا قوی امکان موجود ہے اور اسی وجہ سے عمران خان نے نہ صرف چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر احتجاج بھی شروع کروا دیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کے پٹیشنر اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور دیگر بینکوں کی دستاویز نے میرے الزامات کو ثابت کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ بھی انکی تصدیق کر چکی ہے، لہٰذا اب عمران خان کا اس کیس میں بچنا محال ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تیس روز میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ کرنے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔ اس سے قبل عدالت نے الیکشن کمیشن کو روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کا حکم دیتے ہوئے 30 روز میں فیصلہ کرنے کا کہا تھا، عدالت نے یاد دلایا تھا کہ یہ کیس پچھلے سات برس سے لٹکایا جا رہا ہے۔ لیکن اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ اس کیس میں کارروائی اتنی آگے جا چکی ہے کہ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے صرف فیصلہ سنانا باقی ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں الیکشن کمیشن کی تحقیقات سے یہ معلومات سامنے آئیں کہ تحریک انصاف نے درجنوں اکاؤنٹس کو خفیہ رکھا اور فارن فنڈنگ شفاف نہیں تھی۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت گزشتہ سات برس سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ حاصل ہونے والے فنڈز کی دستاویزات موجود ہیں۔
اقتدار سے بے دخل ہونے سے قبل ایک انٹرویو میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ دو ملکوں نے انھیں انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔ عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ اب کیس کا فیصلہ جلد ہونے کے پیش نظر عمران چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں حالانکہ سکندر سلطان راجہ کو اس عہدے پر انہوں نے خود تعینات کیا تھا۔ واضح رہے کہ عمران خان نے 2013 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کی قیادت کی تھی۔ اسی دوران انہوں نے تب کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس پر اُنھیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا، بعد ازاں عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے تحریری معافی مانگ کر جان چھڑائی تھی۔
تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں کوئی سیاسی مخالف جماعت نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر 2014 میں لے کر آئے تھے۔ اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اکبر ایس بابر نے کہا کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ کہا تھا کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔ اکبر ایس بابر کے مطابق امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہُنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کا الیکشن کمیشن میں اس درخواست کو لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں اور نہ ہی کسی کی عزت کو اُچھالنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتا ہوتا ہے۔ جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔ ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ کسی جماعت کو دستیاب قانونی آپشن استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ واضح رہے کہ سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی گئی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو 2009 سے 2013 کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔ 2014 سے لے کر 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ہے۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب کے مطابق اس وقت پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی جماعت کے 40 ہزار سے زیادہ ڈونرز ہیں جو ان کی جماعت کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کے بقول ان تمام ڈونرز کی فہرست الیکشن کمیٹی کی سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کی جا چکی ہیں۔
کافی عرصے تک تحریک انصاف کا مؤقف رہا ہے کہ اُنھوں نے بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکٹھے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں لیکن گزشتہ دنوں حکمراں جماعت کی طرف سے جو بیان سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے لی جاتی ہیں۔ اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے حزب مخالف کی جماعتوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں ہوگی بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہوگی اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی ایجنٹ نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جو رقم اکٹھی کی ہے کیا وہ فنڈز پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئے ہیں تو تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی کے پاس جو بھی فنڈز آئے ہیں ان کا آڈٹ کروایا گیا ہے۔ اُنھوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ تحریک انصاف نے اس الزام کو تسلیم کیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے چندہ اکٹھا کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکٹھے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 جو کہ پارلیمنٹ میں موجود تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر پاس کیا تھا، میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بنائے گئے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ سنہ 2002 کی دفعات 204 سے لے کر 212 تک کو شامل کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ تمام دفعات سیاسی جماعتوں کی فارن فنڈنگز سے متعلق ہیں۔
کنور دلشاد نے کہا کہ اس قانون کے آرٹیکل 210 کے تحت اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے بیرون ممالک سے چندہ حاصل کرنے کے ثبوت مل جائیں تو الیکشن کمیشن اس وقت کی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیجے گا، جس پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے لیے لازم ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017 کی شق 212 کے تحت ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے فنڈز کی پاداش میں الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ ایسی سیاسی جماعت کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کو درست مانتی ہے تو ایسی صورت میں سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی۔ کنور دلشاد کے مطابق ایسا ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی حتیٰ کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔ لہذا اپنی جماعت کے خلاف آنے والے فیصلے کو روکنے کے لیے عمران خان نے الیکشن کمیشن کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے تاکہ اس کی ساکھ کو خراب کیا جا سکے۔

Back to top button