عدم ثبوت پر120 دن میں ای سی ایل سے نام خارج ہوجائے گا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے رولز میں ترمیم کر دی گئی ہے ، جس کے تحت عدم ثبوت کی بنا 120 دن میں نام خارج ہو جائے گا، اور اس سے ساڑھے 3 ہزار لوگ براہ راست مستفید ہوں گے،رولز میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں جس سے ہمیں فائدہ ملے اور ہمارے مخالفین کو سزا ملے، قواعد میرٹ پر بنائے گئے ہیں تاکہ کسی ایک فریق کو فائدہ اور دوسرے کو نقصان نہ ہو، جس کا جو حق ہے وہ ملے گا۔
اسلام آباد می پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکا کہنا تھا وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں کی تعداد 21 یا 22 ہے، بریفنگ لی ہے، جہاں بہت سے ایسے شعبے ہیں جس کو نظرانداز کیا گیا ہے اور ان شعبوں پر شاید دھیان جاتا ہی نہیں ہے، تاہم ان شعبوں میں ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جس سے عوام کو بڑے پیمانے پر ریلیف مل سکتا ہے اور لوگوں کی فلاح ہوسکتی ہے۔ وہاں موجود صحافیوں سے اس حوالے سے تجاویز بھی مانگیں اور کہا ہے کہ آپ کی رہنمائی بروئے کار لاتے ہوئے وزارت میں عوامی فلاح کے حوالے سے بھرپور طریقے سے کام کرنے کی کوشش کی جائے گی اور جو بھی فیصلہ ہوگا اس سے آگاہ کیا جائے گا۔
انکا کہنا تھاایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے حوالے سے پچھلے ساڑھے تین، چار سال میں ایسا مسئلہ بن گیا تھا کہ مخالفین کے لیے ایک تو نیب تھی تاکہ ڈرایا جائے اور پھر اس کو ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ وہ ڈر کر حکومت کی فرمائش پر عمل کرنا شروع کردے، سب سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس پر توجہ دی کیونکہ ہم خود اس کا شکار ہیں اور ہمیں احساس ہے کہ نیب کے نوٹس سے لوگوں پر کیا گزرتی ہے اور جب کسی کو بلاوجہ ای سی ایل میں ڈالتے ہیں تو اس کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا اس حوالے سے کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزارتی کمیٹی بنائی گئی تھی اور اسی حساب سے ایاز صادق، اعظم نذیر تارڑ، نوید قمر اور اسعد محمود پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تھی، جس نے رولز میں ترمیم کی اور کابینہ نے اس کی منظوری دی اور ان رولز پر عمل ہو رہا ہے،کوئی بھی شخص جس کو حکومت نے ای سی ایل میں ڈالا ہو اور ثبوت نہیں لائے گئے اور اس کو 120 دن سے زیادہ ہوگئے تو وہ تمام لوگ ای سی ایل سے نکل جائے گا،
اس وقت ای سی ایل میں 4 ہزار 863 لوگ ہیں، ان میں سے 3 ہزار لوگوں کو اس ایک قدم سے فائدہ ہوگا اور وہ خود بخود فہرست سے باہر ہوجائیں گے کیونکہ اب یہ قانون بن گیا ہے، حکومت جس آدمی کو ای سی ایل میں ڈالتی ہے اور اگر 120 دنوں میں اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں کر لے آتی اور اس کو سننے کا موقع نہیں دیتی تو وہ خود بخود 120 دن کے بعد ای سی ایل سے باہر ہوجائے گا۔
رانا ثنا اللہ نے کہااگر حکومت سمجھتی ہے تو اس کے خلاف ثبوت لے کر آئے گی اور اس کے لیے یہ لازمی ہوگا کہ ای سی ایل کمیٹی اس کو سنے اور اس کے بعد 90 دن کے لیے مزید رکھ سکتی ہے لیکن دہشت گردی میں ملوث، قومی سلامتی کو جن سے خطرہ ہو یا جن افراد کے نام ہائی کورٹ، سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالت کی وجہ سے ای سی ایل میں ہوں گے یا ایسے افراد جن پر عوام سے دھوکا دہی کا الزام ہوگا، ان لوگوں کو اس سے فائدہ نہیں ملے گا۔
وفاقی وزیرنے کہا پاسپورٹ سے متعلق ایک بلیک لسٹ ہے، پی این آئی ایل ہے اور اس کے تحت تقریباً 30 ہزار لوگ ہیں، سالہا سال سے لوگوں کو وہاں ڈالا ہوا ہے، ان کا جائزہ نہیں لیا جاتا اور کوئی پوچھتا نہیں ہے اور ان لوگوں میں اتنی سکت نہیں ہے تو وہ مسلسل اس میں مبتلا ہیں، اس لیے اس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، یہ تعداد بہت زیادہ ہے تو اس لیے آنے والے دنوں اور ہفتوں یا 30 روز کے اندر پوری طرح کام کریں گے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ڈی پورٹ ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کو ای سی ایل میں ڈالا جاتا ہے اور پھر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے،سابق وزیر اعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ سیکیورٹی یا اس طرح کی کوئی چیز تھی، میں دہرانا نہیں چاہوں گا کہ ماڈل ٹاؤن میں ہمارے سیکریٹریٹ کے باہر کیا ہوا، جاتی امرا کے باہر یا دیگر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے،
ان کی طرف سے حکومت کو لکھا گیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ اور سیکیورٹی درکار ہے تو وہی سیکیورٹی دی گئی ہے جو ان کے سیکریٹری اعظم خان نے منظور کی تھی تو انہیں فول پروف سیکیورٹی دینے کا حکم وزیراعظم شہباز شریف نے دیا تھا اور اسی کے مطابق ان کو سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے،
اس میں رینجرز، ایف سی اور ساتھ بلٹ پروف گاڑی اور دیگر ضروریات ہیں، اس کے مطابق سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے، کسی اور کو بھی سیاسی طور پر ہمارا اختلاف اپنی جگہ، ہمارے خلاف جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ اپنی جگہ پر لیکن کسی بھی ایسے حق سے جو قانون کے تحت بنتا ہو ہم کسی طریقے سے اس سے محروم نہیں رکھیں گے۔
رانا ثنااللہ نے صحافیوں سے کہا کہ اپنے پیش رو کی طرح ایک پریس کانفرنس گھر سے دفتر آتے ہوئے اور ایک پریس کانفرنس دفتر سے گھر جاتے ہوئے شاید نہ کر سکوں لیکن جیسے ہی کوئی ایسا معاملہ یا فیصلہ ہوا کرے گا تو ہفتے میں ایک دفعہ یا دو سے تین دفعہ بھی ضرورت پڑے تو اس حوالے سے زحمت دیتا رہوں گا۔