عمران اورساتھیوں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا آغاز
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے قومی اسمبلی بحال کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد وزارت قانون کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں آئین شکنی کے مرتکب سابقہ حکومتی عہدیداروں پر آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمات قائم کرنے کے حوالے سے قانونی رائے دے۔ اٹارنی جنرل آفس نے بھی آرٹیکل 6 کے حوالے سے آئینی شقوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے، سینٹ میں بھی آئین شکنی کے ملزموں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کی قرارداد جمع کروا دی گئی یے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم کے مفاد کی خاطر اپنے آئینی حلف سے روگردانی کی اور غیر قانونی طور پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رکوائی۔ اس کے علاوہ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے باوجود تب کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا اور صدر کی جانب سے قومی اسمبلی توڑنا بھی غیر آئینی اقدامات تھے۔ سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ آئین شکنی کے مرتکب حکومتی عہدیداروں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کا فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے۔ چنانچہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی روشنی میں آرٹیکل 6 کی کارروائی کیلئے کام شروع کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی پابند ہے اور آئین شکنی اور آئین سے انحراف کا راستہ ہمیشی کے لیے بند کر دیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے علاوہ بھی وزارت قانون کی جانب سے عمران کے بعض بیانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے جو کہ بغاوت اور آئین سے ماورا اقدامات پر ابھارنے کے زمرے میں آتے ہیں، جس کی سزا تاحیات نااہلی بھی ہو سکتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان کی جانب سے بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمات دائر کرنے کا عندیہ دیا گیا یے۔ سی یٹ میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایک قرارداد بھی جمع کروا دی ہے، قرارداد میں کہا گیا کہ سینیٹ فوری طور پر عمران خان، عارف علوی، قاسم سوری اور فواد چوہدری کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع کرے۔قرارداد میں کہا گیا یے کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے مطابق عمران خان، عارف علوی، قاسم سوری اور فواد چوہدری نے آئین سے تجاوز کیا۔ اسکے صدر عارف علوی غدار ہیں اور انہیں صدارت کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔
دوسری جانب رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ سے عمران خان کی گرفتاری کی اجازت مانگ لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ سے اجازت ملنے کی صورت میں عمران کی گرفتاری عمل میں آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں باتیں واضح ہو گئی ہیں اور ثابت ہو گیا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی ہوئی جس کی پاداش میں آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ثابت ہو جائے کہ آئین توڑا گیا اور سپریم کورٹ بھی اسکی تصدیق کر دے تو دستور پاکستان کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ دائر کرنے سے متعلق کام شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آٹیکل پانچ اور چھ کے تحت وفاقی حکومت ہی ریفرنس دائر کر سکتی ہے جیسا کہ جنرل مشرف کے کیس میں بھی کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ریفرنس کی وجہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل جج نے تو اپنے اختلافی نوٹ میں ایسی کارروائی کی واضح سفارش بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رکوانا آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی تھا۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ صرف وفاقی حکومت ہی آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ سننے کے لیے بینچ تشکیل دی سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس قانون کے تحت الزام ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو سزائے موت یا عمر قید کی سز دی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک بات صاف طور پر کئی گئی ہے کہ جس طرح ومران کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ووٹ کو روکا گیا وہ آئین کے ساتھ فراڈ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے آئین کیساتھ فراڈ کیا ہے، عدالتی فیصلہ ان کو بڑی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے واضح کر دیا ہے کہ پارلیمان میں اکثریت کو اقلیت یرغمال نہیں بنا سکتی اور آئندہ بنائے گی بھی نہیں، یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ اکثریت عدم اعتماد کے حق میں تھی۔