عمران جسٹس فائزعیسیٰ کے خلاف کونسا کیس بنانا چاہتے تھے؟
ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن نے سابق وزیر اعظم عمران خان کا یہ موقف رد کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی ریفرنس دائر کرنے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا اور ایسا انہوں نے وزیر قانون کے کہنے پر کیا۔انکا کہنا ہے کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم انہیں بھی جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانے کا کہا تھا۔ سینئر صحافی ندیم ملک سے انٹرویو میں بشیر میمن نے کہا کہ جب عمران خان نے انہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا جھوٹا کیس بنانے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا تھا۔ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ مجھے وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا، جہاں پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور مشیر احتساب شہزاد اکبر مجھے عمران کے پاس لے گئے۔ خان صاحب نے اپنا کرپشن مخالف بیانیہ دہرانے کے بعد میری تعریف کی اور مجھے احتیاط کے ساتھ کچھ لوگوں کے خلاف مقدمات بنانے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اعظم خان اور شہزاد اکبر کے ساتھ بات چیت میں یہ عقدہ کھلا کہ عمران خان جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنانے کی بات کر رہے تھے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں بتایا کہ ایف آئی اے ایسا کیس نہیں بناسکتی، جس وجہ سے ہماری بات چیت کشیدہ ماحول میں ختم ہوئی۔ بعد ازاں وزیر اعظم بشیر میمن کے خلاف ہو گئے تھے اور انہیں ڈی جی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
دوسری جانب وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران نے دعوی ٰکیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور یہ کام انہوں نے سابق وزیر قانون فروغ نسیم کے اصرار پر کیا۔ ایک سوال پر عمران نے تسلیم کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ان کی غلطی تھے۔ تاہم فروغ نسیم نے عمران خان کا یہ موقف سختی سے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم ایسا کرنے پر مصر تھے اور یہ انہی کا فیصلہ تھا۔ فروغ نسیم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریفرنس دائر کروانے میں بنیادی کردار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تھا جو فائز عیسیٰ کو اگلا چیف جسٹس بننے سے روکنا چاہتے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے پچھلے برس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے اور ریفرنس دائر کرنے کا تمام عمل قانون و آئین کے خلاف تھا۔ اس کیس کا تعلق جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات سے تھا، تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عیسیٰ اور اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ حکام نے غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا۔
دراصل جسٹس فائز عیسیٰ اور انکے خاندان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے میں اہم ترین کردار شہزاد اکبر کی زیرنگرانی چلنے والے ایسٹ ریکوری یونٹ نے ادا کیا تھا۔ شہزاد اکبر چند روز پہلے پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ دوسری جانب فروغ نسیم نے دعویٰ کیا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر عمران نے خود اصرار کیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ براہ راست عمران خان کے ماتحت تھا اور سابق وزیر اعظم نے اس کی جانب سے پیش کردہ مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے پر اصرار کیا۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس پر ردعمل میں ٹویٹ کی اور کہا کہ بطور لا منسٹر آپ کو ذمہ داری لینی چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ تمام معاملہ آپ نے کھڑا کیا حالانکہ میں نے کابینہ میں کہا تھا کہ ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنا حکومت کا کام نہیں ۔
ٹوئٹر پر فواد چوہدری اور فروغ نسیم کی ان باتوں پر ایک بھونچال کی کیفیت ہے۔ صارفین فواد چوہدری کی پرانی ٹوئٹس نکال نکال کر ان کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں اور ان سے سوال کر رہے ہیں کہ اگر آپ اس کے خلاف تھے تو فلاں ٹویٹ کیوں کی پریس کانفرنس کیوں کی؟ عمران کی کابینہ کے سابق رکن ندیم افضل چن سے پوچھا گیا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے تو ان کا مختصراً جواب تھا کہ دونوں وزرا آدھا آدھا سچ بتا رہے ہیں۔ پورا سچ کیا ہے مناسب ہو گا کہ وہ خود ہی بتا دیں۔‘