عمران خان نے دھمکی آمیز خط کا الزام امریکہ پرلگا دیا

وزیر اعظم عمران خان نے دھمکی آمیزخط کا الزام امریکہ پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 7 مارچ کو ہمیں امریکہ سے ایک خط آیا،خط لکھنے والوں کو پہلے ہی پتہ لگ گیا تھا کہ یہاں تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے،عدم اعتماد والوں کے پہلے سے باہررابطے تھے، خط لکھنے والوں کے تھری سٹوجزکے رابطے ہیں، کہا گیا تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تومشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،اوراس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی ،یہ چاہتے ہیں کہ عدیہ پیغام وزیراعظم اورقوم کے بھی خلاف ہے۔اتوارکو ووٹنگ میں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہوجائیگا، استعفیٰ نہیں دوں گا،آخری گیند تک لڑوں گا،فیصلہ جو بھی ہومیں اورزیادہ تگڑاہو کرآئوں گا۔
قومی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا میں قوم سے براہ راست خطاب کر رہا ہوں کیونکہ پاکستان ایک ایسے وقت میں جہاں ہمارے سامنے دو راستے ہیں،ہم وہ پہلی نسل ہیں جو آزاد ملک میں پیدا ہوئے، ہمارے والدین اس وقت پیدا ہوئے جب انگریز قابض تھے، خود لوگوں کو انگریزوں کی غلامی برا لگتا تھا، ہمیں بچپن سے بتایا گیا تھا کہ خود داری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے، پاکستان کا مقصد بڑا عظیم تھا، ہم نے اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا، جب ہم اسلامی فلاحی ریاست کہتے ہیں اس کا مطلب مدینہ کی ریاست ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا جب میں نے سیاست شروع کی تو منشور میں تین چیزیں رکھیں، پہلے انصاف، دوسرا انسانیت اور تیسری چیز خود داری تھی،غلامی چاہے پیسے کی ہو یا دوسری چیزوں کی وہ شرک ہے، اللہ اگر میرے اندر ایمان نہیں ڈالتا تو میں سیاست میں نہیں آتا اور میرے پاس سب کچھ تھا، تو مجھے سیاست میں آنے کی کیا ضرورت تھی، میں نے پاکستان کی اونچ نیچ دیکھی ہے، ہم بچے تھے تو پاکستان کی مثالیں دی جاتی تھیں، جنوبی کوریا سیکھنے کے لیے پاکستان آیا تھا، ملائیشیا کے شہزادے اسکول پڑھنے پاکستان آئے تھے اور میرے ساتھ پڑھے، میں پاکستان کو ذلیل ہوتے دیکھا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانیوں کو ذلت ملی، شاہین اس وقت اوپر جاتا ہے جب وہ مزاحمت کرتا ہے اور مشکل کا سامنا کرتا ہے۔
عمران خان نے کہا ہم زمین میں چونٹیوں کی طرح رینگ رہے ہیں، میں نے ہمیشہ ایک چیز کہی کہ میں کبھی نہیں جھکوں اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹا، جب اقتدار ملا تو فیصلہ کیا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہوگی،آزاد خارجہ کا مقصد پاکستان اور پاکستانیوں کا فائدہ تھا، کبھی کسی کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا، میں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی کیونکہ نائن الیون میں پاکستان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا، جو پاکستانیوں کی جانی قربانی دی گئی وہ امریکا سمیت کسی ملک کی نہیں دی گئی، کوئی نیٹو ملک نے اتنی جانی قربانی نہیں دی، قبائلی علاقے پرامن ترین تھا، وہ علاقے کرائم فری تھے۔ مجھے جب حکومت ملی تو پہلے دن سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے لوگوں کے لیے ہوگی، یہ کسی کے خلاف نہیں تھی، امریکا یا کسی اور ملک کے خلاف نہیں تھی، یہاں تک بھار ت کے خلاف بھی نہیں تھی،بھارت کے خلاف 5 اگست 2019 کو کشمیر میں بین الاقوامی قانون توڑا تو اس کے خلاف ہوگیا۔
انہوں نے کہا میں آج آپ کے پاس یہ ساری بات کرنے کے لیے اس لیے آیا ہوں کہ ابھی ہمیں 8 مارچ یا اس سے پہلے 7 مارچ کو ہمیں امریکا نے امریکا نہیں باہر سے ملک سے مطلب کسی اور ملک سے پیغام آتا ہے۔میں اس لیے پیغام کی بات کر رہا ہوں اور اسی لیے براہ راست کر رہا ہوں، یہ ایک کسی آزاد ملک کے لیے جس طرح کا ہمیں پیغام آیا ہے، یہ ہے تو وزیراعظم کے خلاف ہے لیکن یہ ہماری قوم کے خلاف ہے، مجھے سب سے زیادہ تکلیف یہ نہیں ہے، یہ واضح لکھا ہوا ہے کہ جناب اگر عدم اعتماد کا ان کو پہلے سے پتہ تھا، ابھی عدم اعتماد درج نہیں ہوئی تھی، اس کا مطلب یہ جو ہورہا تھا یہ ان کے باہر کے لوگوں سے رابطے تھے، اس میں مزیدار چیز یہ ہے کہ پاکستان کی قیادت یا پاکستان کی حکومت کے خلاف نہیں، صرف عمران خان کے خلاف ہے، وہ یہ کہتے ہیں اور بہانہ کرتے ہیں کی ہمیں کیوں پاکستان پر غصہ ہے، لیکن پاکستان کو معاف کردیں گے کہ اگر عمران خان عدم اعتماد ہار جاتا ہے یعنی عمران خان کے خلاف ناکام ہوجاتی ہے تو پاکستان کو ایک مشکل وقت کا سامناکرنا پڑے گا، یہ ریکارڈڈ ہے، یہ نہیں کہ دیکھ رہا ہوں میڈیا کے لوگ کور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا نہیں تو ایسا نہیں لیکن یہ سرکاری دستاویز ہے، یہ حکومت پاکستان کو، ہمارے نمائندے سفیر کو نوٹس لے رہے تھے لوگ، جس میں بنیادی طور پر یہ کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو ہمارے تعلقات بھی خراب ہوں گے اور آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وزیر اعظم نے کہا میرا قوم سے سوال ہے کہ کیا ہماری یہ حیثیت ہے، 22 کروڑ کی قوم کی، کیا ہمیں کوئی باہر کا ملک، کوئی وجہ نہیں بتا رہا، ایک چیز بتائی کہ عمران خان نے کوئی اکیلا فیصلہ کیا روس جانے کا، حالانکہ روس جانے کا فیصلہ تھا رو وزارت خارجہ، عسکری قیادت کی مشاورت تھی، پرانے سیکریٹر خارجہ کو اسی کمرے میں بلایا تھا ان سے مشاورت کرکے گئے تھے، لیکن اس میں لکھا ہوا حالانکہ ہمارا سفیر بتارہا ہے کہ مشاورت سے ہوا ہے لیکن وہ کہتا نہیں یہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہوا ہے،پھر انہوں نے لکھا کہ جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، وہ اصل میں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جب جائے گا تو عمران خان کی جگہ دوسرے آئیں گے تو ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اپنی قوم کے سامنے یہ چیز رکھنا چاہتا ہوں
انکا کہنا تھا میرا آج آپ سے بات چیت کرنے کا مقصد یہ تو نہیں ہے کہ باہر سے کوئی ملک یہ کہے کہ ہاں ہمیں آپ کی خارجہ پالیسی نہیں پسند، پتہ نہیں کوئی کیا وجہ بتارہا ہے کہ روس کیوں گئے، وہ یورپی لیڈرز بھی روس چلے گئے لیکن خاص پاکستان کو کہ آپ کیوں گئے کہ جیسے ہم ان کے نوکر ہوں، اس میں سب سے مضطرب کرنے والی چیز یہ ہے کہ ان کے رابطے ان لوگوں سے ہیں، جن کے ذریعے ساری سازش ہوئی ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے اور یہاں کون بیٹھے ہیں تھری اسٹوجز ہیں، اسٹوجز کا مطلب ہوتا ہے جو کہ بڑے وفادار غلام ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ چاہ رہے ہیں کہ عمران خان جائے لیکن اگر یہ آجائیں، جنہوں نے ابھی عدم اعتماد کیا ہوا ہے، تو سب ٹھیک ہوجائے گا، سب پہلے میرا سوال ہے کہ کیا اپنے ملک کے اندر اجازت دیں گے کسی کو قیادت میں آنے، جن کے اوپر نیب کے کیسز ہیں، جن پر اربوں روپے کے کیسز عدالتوں میں ہیں، وہ جن کو پاکستان کی عدالت نے مجرم قرار دیا، جو جھوٹ بول کر بھاگا ہوا ہے،وہ ان لوگوں کو جن کے اوپر باہر کے ملکوں میں چوری، کرپشن پر مضمون لکھے ہوئے، بی بی سی سی کی دو ڈاکیومنٹریز آئی ہوئی ہیں ان کی چوری کی، کیا یہ لوگ اپنے ملک میں اس طرح کے لوگوں کو قیادت میں آنے دیں گے،یہ اپنے ملک جھوٹ بولنے پر نکال دیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر، ان کے لوگوں کا اخلاقی معیار اس سطح پر ہے کہ چھوٹی چیز پر نکال دیتے ہیں، ہمارے ملک میں نیب کے اربوں کے کیسز ہیں، 30 سال سے کیسز ہیں،پہلے کیسز جنرل مشرف نے ان کو این آر او دیا اور سارے کیسز معاف ہوگئے، پھر 10 سال میں اربوں کے مزید کیسز چڑھ گئے، ان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں لیکن عمران خان ان کو پسند نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا مجھے اگلی چیز سمجھ میں نہیں آرہی جو اپنی قوم سے پوچھ رہا ہوں کہ جب ان کو بھی پتہ ہے، یاد رکھنا جب ان کی انٹیلی جینس ہوتی ہے ان کو سارا پس منظر پتہ ہوتا ہے، میرا ان کو سب پتہ ہے، ساری سیاسی قیادت ہے، ان کا سب پس منظر پتہ ہے، ان کی ایک ایک چیز پتہ ہے، ان کے بیرون ملک کس اکاؤنٹ میں کتنے پیسے میں پڑے ہوئے ہیں، ان کو سب پتہ ہے ان کی بے نامی جائیدادوں کی جو بیرون ملک انہوں نے اربوں روپے کی لی ہوئی ہے، ہر تفصیل ان کو پتہ ہے، ایک ہمارا نوجوان سیاست دان ہے، رون سسکنڈ کی ایک کتاب ہے دا وے آف دا ورلڈ، جس میں وہ لکھتا ہے کہ ان کی نیشنل سیکیورٹی ٹیپ کر رہی ہے، اس کی والدہ اس کو ٹیلی فون کرکے بینک اکاؤنٹس بتارہی ہیں، یعنی ادھر تک ان کو پتہ ہے۔
انہوں نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہایہ جو تین لوگ ان کو پسند آگئے ہیں، ان کی کیا خاصیت ان کو پسند آگئی، جنرل مشرف کے برسوں کے اندر 11 ڈرون حملے ہوئے، یہ تینوں اکٹھے اقتدار میں تھے، ان کے 10 سال میں اس ملک میں 400 ڈرون حملے ہوئے،ایک دفعہ ان کے منہ سے نہیں نکلا کہ ہم مذمت کرتے ہیں، حامد کرزئی افغانستان میں جب وہاں ڈرون حملوں اور بمباری سے بے قصور لوگ مرتے تھے تو وہ مذمت کرتا تھا جہاں افغانستان میں بیرونی افواج تھیں، یہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں 400 ڈرون حملوں میں ایک دفعہ مذمت نہیں کی، اسی لیے یہ ان کو موزوں ہیں،مولانا فضل الرحمٰن کی ایک وکی لیکس، وکی لیکس کیا تھی کہ ایک نس طرح پاناما پیپرز کا انکشاف ہوگیا تھا، انٹرنیشنل خفیہ پیپرز یا دستاویزات لیک ہوگئے تھے، وکی لیکس میں انکشاف ہوتا ہے کہ جو پاکستان کے اندر امریکی سفیر این پیٹرسن اس کو فضل الرحمٰن کہتا ہے مجھے موقع دیں تو میں بھی وہیں خدمت کروں گا جو باقی کرتے ہیں۔
عمران خان نےکہا نواز شریف کا برکھادت کی کتاب میں ہے کہ نیپال میں نریندر مودی سے چھپ کر مل رہا تھا اپنی فوج سے بچنے کے لیے، ڈان لیکس میں کیا تھا، ہندوستان کو پیغام دیا جارہا تھا کہ فوج کر رہی ہے تو فوج کر رہی ہے میں نہیں کر رہا ہوں، آصف زرداری کا باب ووڈ ورڈ کی کتاب میں ہے کہ جب ان کا سی آئی اے چیف ان سے کہتا ہے بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں تو فکر نہ کریں اگر ڈرون حملے میں بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں تو مجھے فرق نہیں پڑتا، یہ پاکستان کا صدر دوسروں کو کہتا ہے، کتاب میں وہ لکھتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ملک کا صدر کیسے بات کر رہا ہے، اس طرح کے لوگ ان کو پسند ہیں۔
انکا کہناتھا شہباز شریف کا بیان کہ عمران خان نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر غلطی کی ہے، ایبسلوٹلی ناٹ میں کیا تھا، میں نے صرف یہ بات کہی کہ ہم امن میں آپ کے ساتھ ہیں، ہم جنگ میں یا تنازع میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں، افغانستان یا کہیں بھی امن چاہتے ہیں ہم ساتھ ہیں،میری پالیسی یہ ہے کیونکہ ہم آزاد ہیں، یعنی ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں، ہماری کریڈیبلٹی ہوتی ہے کہ ہم ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں،وہ صرف تب ہوتی ہےجب لوگ سمجھیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی آزاد ہے، جب لوگ پہلے سمجھتے ہیں کہ جدھر سے حکم آئے گا آپ نے وہی کرنا ہے، آپ کو اتنی بھی شرم نہیں ہے کہ آپ کے ملک میں آپ کا دوست بمباری کر رہا ہے، آپ کے لوگ مر رہے ہیں، آپ اس کو کچھ نہیں کہہ رہے ہیں تو آپ کی کیا کریڈیبلٹی ہوگی اور دنیا آپ کی کیا عزت کرے گی،جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے، تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے پوچھیں ان کو کس ذلت کا سامنا کرنا پڑا، ایئرپورٹس پر پکڑ کر گرفتار کیا جاتا تھا، عام بے قصور لوگوں کو پاکستانیوں کو باہر جیل میں بھیج ڈال دیتے تھے جبکہ یہاں ہم ان کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور باہر پاکستانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم کا کہناتھا کبھی ان سے پوچھیں، کتنے پاکستانیوں کو جیل میں ڈالا گیا، کبھی کسی نے بات کی، کسی نے ان کے لیے اسٹینڈ لیا،میں کسی کے خلاف بات نہیں کرتا، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ میری سب سے بڑی ذمہ داری 22 کروڑ لوگ ہیں، ان کے لیے خارجہ پالیسی بناؤں۔

Back to top button