فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ‘تیسرے’ کی اصطلاح کیوں ایجادہوئی؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عرفان صدیقی نے پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک نیا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عزیزی مونس الٰہی نے کچھ دن قبل انکشاف کیا کہ 2018ءکے انتخابات میں جب وہ ٹکٹ دینے والی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے توتحریک انصاف کے د و رہنمائوں کیساتھ ایک ’’تیسرا‘‘ بھی تھا۔ انہوں نے دو رہنمائوں کے نام تو بتا دئیے لیکن ٹی وی میزبان کے اصرار کے باوجود ’’تیسرے‘‘ کا نام لینے کے بجائے ایشیائی دوشیزہ کی طرح مُسکرا کے رہ گئے۔ ایسے میں مجھے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ لفظ ’’تیسرا‘‘ کو اپنے نام سے رجسٹر کرالوں تاکہ جب بھی یہ اصطلاح سیاسی اظہاریوں اور تحریروں کا حصہ بنے تو کوئی دوسرا اسے خود سے منسوب نہ کرسکے۔

اپنی تازہ تحریر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عرصے سے اس مفہوم کیلئے اسٹیبلشمنٹ، خلائی مخلوق، نامعلوم اور محکمہ زراعت جیسی ناملائم، کھُ دری، اَن گڑھ اور بے ذوق سی اصطلاحات استعمال ہورہی ہیں۔ ان سے ایک طرح کی بیگانگی اور پرایا پن بھی جھلکتا ہے۔ وقت کا تقاضا تھا کہ بدلتے موسموں میں اِن فرسودہ اصطلاحات کے میل خوردہ پیراہن اتار پھینکے جائیں اور اُن کے مفہوم کو کسی نئی خوش وضع اصطلاح کا جامہِ خوش رنگ پہنایا جائے جس میں کسی نوع کے منفی تاثر کا شائبہ تک نہ ہو۔ اِسے قدرت کی عطا ہی کہنا چاہئے کہ عزیزی مونس الٰہی نے میری فکر کا ایک نیا دریچہ کھول دیا۔ اِس حوالے سے میں نے ’’تیسرا‘‘ پر غور شروع کیا تو اُفق تا اُفق ایک نیا جہان معنی کھُلتا چلاگیا۔ مجھے لگا کہ ’ ’تیسرا‘‘ محض ایک شماریہ، ایک لفظ، ایک اصطلاح، ایک استعارہ یا ایک ضر ب المثل نہیں، ابلاغیات کی ایک کائنات ہے۔ ’’تیسرا‘‘ سات دہائیوں میں بھی کبھی فارغ نہیں بیٹھا لیکن گزشتہ چھ برس سے وہ بے حد مصروف رہا۔ کسی خاص لمحے اُس نے ٹھان لی کہ فلاحِ ملک وقوم کیلئے، نوازشریف کو اقتدار سے فارغ کرکے نمونہِ عبرت بنانا اور پاکستان کے تاج میں عمران خان نامی نگینہ سجانا، ضروری ہے، سو وہ سرگرم ہوگیا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مونس الٰہی کی انتخابی کمیٹی میں ہی نہیں، پاکستان بھر کے حلقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم اور موزوں امیدواروں کے انتخاب میں ’’تیسرا‘‘ موجود رہا۔ 25 جولائی کی شام جب لگا کہ سرکوبی کے باوجود نوازشریف کی جماعت سراٹھا رہی ہے تو ’’تیسرے‘‘ نے آنِ واحد میں آر۔ٹی۔ایس کی تاریں کھینچ لیں۔ جب یقین ہوگیا کہ ’’کانِ انتخابات‘‘ سے گوہر مقصود حاصل ہوگیا ہے تو مستی وسرشاری کے عالم میں اس نے ٹویٹ کیا کہ "اللہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔‘‘ فتح مبین کے بعد بھی ’’تیسرا‘‘ اپنے گوہر مقصود کی چھتر چھایا بنا رہا۔ جب بھی لوگ ٹوٹنے لگے، اتحادی روٹھنے لگے، کسی بل یا بجٹ کی منظوری کے لئے گنتی پوری کرنا پڑی، کسی جج کو راہِ راست پر لانا پڑا، عدلیہ سے کسی مخصوص فیصلے کی ضرورت پڑی، گوہرِ مقصود کے کسی غنیم کو شکنجے میں کسنا پڑا، روپے پیسے کی حاجت ہوئی، میڈیا کو نکیل ڈالنے کی ضرورت پیش آئی تو ’’تیسرا‘‘ سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔ اس کا اعتراف خود گوہر مقصود نے بھی کیا ہے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ مافوق الفطرت صلاحیتوں کے باوجود، ’’تیسرا‘‘ بہرحال گوشت پوست کا بنا انسان تھا۔ دِل اور دماغ بھی رکھتا تھا۔ سو کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دِن وہ ’’گوہر مقصود‘‘ کی ناکردہ کاریوں سے تنگ آ گیا اور کنارہ کرلیا۔ چھتر چھایا ہٹتے ہی سورج سوا نیزے پہ آکھڑا ہوا۔ ہوائیں آندھیوں میں بدل گئیں۔ خیمہِ اقتدار اُکھڑ گیا۔ طنابیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ قناتیں دھجیاں ہوگئیں۔ دیکھتے دیکھتے فتوحات کے پھریرے لہراتی لشکر گاہ میں شامِ غریباں اتر آئی۔ گوہر مقصود ’’تیسرے‘‘ کا مرہونِ احسان ہونے اور اپنی نااہلیوں کا جائزہ لینے کے بجائے، اُسے بُرا بھلا کہنے لگا۔ اُسے جانور کہا، سازشی قرار دیا، امریکی سہولت کار ٹھہرایا۔ میر جعفر اور میرصادق کا نام دیا۔ کرپشن کا محافظ ہونے کا الزام لگایا۔ ’’تیسرا‘‘ اِسے خود کاشتہ وخودپرداختہ شجر کا کڑوا کسِیلا پھل جان کر چُپ رہا۔ اَب گوہر مقصود کی تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ ’’تیسرے سے لڑائی پاگل پن ہے‘‘۔ کوئی کیسے سمجھائے کہ پارلیمنٹ سے فرار اور اسمبلیوں کو ریت کے گھروندوں کی طرح توڑنا بھی طفلانہ پن ہے۔ بہرحال، گوہر مقصود درست نتیجےپر پہنچا ہے۔ اُس نے سیاست میں جو کچھ بھی پایا۔ ’’تیسرے‘‘ کے فیض ہی سے پایا۔ وہ جانتا ہے کہ اگر آئندہ بھی کچھ ہاتھ آئے گا تو وہ ’’تیسرے‘‘ ہی کے دستِ معجز نما کااعجازہوگا۔

Back to top button