فوجی ترجمان نے عمران کے سازشی بیانیے کی دھجیاں بکھیردیں
افواج پاکستان کے ترجمان نے سابق وزیراعظم عمران خان کے بیرونی سازش کے بیانیے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے عمران خان کے بیرونی سازش کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل ہی نہیں ہے لہٰذا کسی سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد سے عمران خان مسلسل یہ الزام عائد کرتے چلے آ رہے ہیں کہ انکی حکومت ایک امریکی سازش کے تحت گرائی جا رہی ہے۔ اپنے اس دعوے کے بعد عمران خان نے یہ عجیب حرکت بھی کی کہ اپنی حکومت کو خود ہی ختم کرتے ہوئے امریکی سازش کو مکمل کر دیا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس سازش کو ناکام بناتے ہوئے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا تھا۔
اسلام آباد میں ایک بھر پور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فوجی ترجمان نے یہ اعلان بھی کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نہ تو توسیع لینے کی کوئی خواہش ہے اور نہ ہی وہ ایسی کوئی پیش کش قبول کریں گے۔ یوں پی ٹی آئی کا یہ بیانیہ بھی ہوا ہو گیا کہ آرمی چیف اپنے عہدے میں توسیع کی خاطر نیوٹرل ہوئے تھے تاکہ اگلی حکومت سے ایکسٹینشن لے سکیں۔ فوجی ترجمان نے بڑے واضح الفاظ میں بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2022 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔
فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کو سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے بیانیے کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اعلامیے میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا یا کیا نہیں تھا، اس اعلامیے میں میرا نہیں خیال کہیں بھی ’سازش‘ کا لفظ موجود ہے، اس میٹنگ کے منٹس کو حکومت ڈی کلاسیفائی کر سکتی ہے اور نئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے اور مسلح افواج کے سربراہ اس اجلاس میں بھی جا کر وہی ’اِن پُٹ‘ دیں گے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران خان مسلسل یہ دعوی ٰکر رہے تھے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی سازش ثابت ہوگئی تھی۔ فوجی ترجمان نے عمران خان کا ایک اور دعوی ٰبھی جھوٹا ثابت کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ امریکا کی جانب سے حکومت پاکستان سے فوجی اڈے مانگے ہی نہیں گئےتھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی مطالبہ کیا بھی جاتا تو فوج کا مؤقف بھی سابق وزیر اعظم کی طرح ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ فوج کسی سیاسی جماعت کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے لہٰذا اس حوالے سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ میجر جنرل بابر افتخار نے جو اہم ترین بات کی وہ یہ تھی کہ اب پاکستان میں کبھی کوئی مارشل لا نہیں لگے گا کیونکہ فوج جمہوریت اور آئین کے محافظ کا کردار ادا کرے گی۔ انکا کہنا تھا کہ ’نیوٹرل‘ کا لفظ فوج کے کردار کو ٹھیک طرح بیان نہیں کرتا۔
لیکن ایک بات طے ہے کہ فوج نے سیاست سے خود کو مکمل طور پر علیحدہ کرنے کا عملی ثبوت دے دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اس وقت فوج ’ڈس انفارمیشن مہم‘ کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے لیکن فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا اور پھر سیاسی بحران ختم کرنے کے لیے تین آپشنز بھی دی گئیں جنہیں اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کر دیا، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم آفس کی طرف سے چیف آف آرمی اسٹاف کو اپروچ کیا گیا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں کچھ بچاؤ کی بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بد قسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہ تھی لہٰذا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہیں پر ان تین آپشنز پر بات ہوئی کہ کیا کیا ہو سکتا ہے، ان میں سے ایک تحریک عدم اعتماد کا آپشن تھا، دوسرا وزیراعظم کا استعفیٰ تھا اور تیسرا آپشن یہ تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشنز کی طرف چلے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تیسرے آپشن کو اپوزیشن کے پاس لے گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی، لیکن اپوزیشن کا اصرار تھا کہ وہ اپنے منصوبے پر عمل کرے گی۔
فوجی ترجمان نے کہا کہ حالیہ سیاسی بحران میں فوج بالکل غیر جانبدار رہی۔ انہوں نے پچھلے دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ جھوٹ کا پلندا تھی۔ یاد رہے کہ بی بی سی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اپنے اقتدار کے آخری روز 9 اپریل کی رات عمران خان نے بطور وزیراعظم آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو برخاست کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وزارت دفاع نے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ بی بی سی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی برطرفی رکوانے کے لیے رات کو سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کو کھلوایا گیا تھا اور ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی۔ لیکن فوجی ترجمان کا دعویٰ تھا کہ سوشل میڈیا پر زیر گردش ان افواہوں میں کوئی سچائی نہیں۔
میجر جنرل بابر افتخار نے اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں کوئی سچائی نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بھی ایسا سنا ہے، تحقیقاتی صحافت بہت آگے بڑھ چکی ہے، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے، ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا، کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور ایسی کوئی بات نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتدار کی آخری رات عمران خان کی فوجی قیادت سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اس حوالے سے چلنے والی افواہیں بھی جھوٹ پر مبنی ہیں۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 9 اپریل کی رات عمران خان پر تشدد بھی ہوا جس کے نشانات ان کے چہرے پر نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے، فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا جاتا ہے اور پھر اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
فوج کے اندر جانبدار اور غیرجانبدار کی لڑائی سے متعلق سوال پر بابر افتخار نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ فوج ’یونیٹی آف کمانڈ‘ کے فیکٹر پر چلتی ہے، چیف آف آرمی اسٹاف جس جانب دیکھتا ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے، آج تک اس میں نہ تبدیلی آئی ہے نہ ان شا اللہ آگے کبھی آئے گی، الحمداللہ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا، جمہوریت میں یہ چیزیں چلتی ہیں لیکن اس دوران عدم استحکام ضرور آیا، انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ جس دن نئی حکومت آئی اس دن اسٹاک ایکسچینج اوپر گئی اور ڈالر نیچے آیا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی حدتک سیاسی استحکام آرہا ہے، اس کو برقرار رہنے کے لیے تھوڑا وقت لگے گا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اس روز ان کی طبیعت ناساز تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے، اس کی اور کوئی وجہ نہیں تھی۔