فوجی قیادت کا عمران کے فیصلوں سے لاتعلقی کا اظہار


پاک فوج کے ترجمان نے اس تاثر کو سختی سے رد کیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے اور وزیراعظم کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے فیصلوں کو فوجی قیادت کی تائید حاصل تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومتی فیصلوں کو فوجی قیادت کی تائید حاصل تھی تو انہوں نے کہا ایبسولیوٹلی ناٹ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی فوجی ترجمان ایک پریس کانفرنس میں واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ان کے ادارے کا سیاست سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں اور وہ نیوٹرل ہیں۔ لیکن ان کی اس پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز عمران خان نے ایک جلسے میں نیوٹرل کو جانور قرار دے دیا تھا۔
اتوار کے روز سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے اور عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی توڑنے کے بعد فوجی ترجمان میجر جنرل افتخار بابر نے وضاحت کی ہے کہ آج جو کچھ ہوا فوج کے ادارے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اتوار کو مقامی میڈیا کی جانب سے ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ کیا آج کے اقدامات میں فوج کی رضا مندی شامل تھی؟ اس پر میجر جنرل بابر افتخار نے جواب دیا ’ایبسولیوٹلی ناٹ۔‘
یاد رہے کہ ان دونوں فیصلوں کے فوری بعد حکومتی سائڈ کی جانب سے ایسا تاثر دیا جارہا تھا کہ جیسے ان اقدامات کو فوجی قیادت کی منظعری حاصل تھی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیے جانے کے فیصلے کو ریاستی اداروں کی تائید حاصل ہے۔‘ اتوار کو مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ان کا تجزیہ ہے یا معلومات، تو شیخ رشید نے جواب دیا ’معلومات۔‘ تاہم فوج کی جانب سے اس دعوے کی نفی سامنے آئی ہے۔ڈی جی آٸی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’شیخ رشید غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ہمارا اس سے کوٸی تعلق نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیخ رشید نے مطالبہ کیا تھا کہ ’فوجی اسٹیبلشمنٹ مداخلت کرے اور ملک میں فوری انتخابات کرائے جائیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’غیر ملکی سازش میں ملوث سیاسی جماعتوں پر غداری کے کیس قائم کیے جائیں اور ان پر پابندی عائد کی جائے۔‘
خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ سے قبل ڈپٹی اسپیکر نے تحریک کو مسترد کردیا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک مسترد کرنے کے بعد وزیراعظم نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے صدر کو تجویز بھیج دی تھی۔ صدر نے وزیراعظم کی تجویز پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کی منظوری دے دی۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے جس الزام پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد کی وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ثابت ہو گیا تھا جس کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا اور اس میں بھی بیرونی سازش کا ذکر تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے تمام فیصلے آخری وقت تک چھپا کر رکھے تاکہ اپوزیشن کو ایک بڑا سرپرائز مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی طاقتوں کے ایماء پر اپوزیشن کی جانب سے ان کی حکومت گرانے کی سازش ناکام بنا دی گئی ہے۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کے دوران کہا کہ میں تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر قوم  کو مبارکباد دیتا ہوں۔ عمران خان نے کہا کہ اس طرح کی سازش قوم  کامیاب نہیں ہونے دے گی، اسپیکر نے اپنی اتھارٹی اور آئینی طاقت سے جو فیصلہ  کیا اس کے بعد میں نے ابھی سے صدر  کو اسمبلیاں تحلیل  کرنے کی تجویز بھیج دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری معاشرے میں عوام کے پاس جائیں، الیکشن ہوں، عوام فیصلہ کرے وہ کسے چاہتے ہیں، کوئی باہر سے سازش، کرپٹ لوگ، پیسہ دے کر قوم کا فیصلہ نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنہوں  نے اچکنیں سلوائیں اور لوگوں کو کروڑوں روپے دیے تو وہ پیسہ ضائع ہوگیا۔انہوں  نے مزید  کہا کہ کوئی باہر سے یا کرپشن کا پیسہ اس ملک کا فیصلہ نہیں کرےگا، جیسے ہی صدر اسمبلیاں تحلیل کریں گے تو نگراں حکومت کا عمل شروع ہوگا۔
دوسری جانب وزیراعظم، صدر اور سپیکر قومی اسمبلی کے اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر اعظم اور صدر کے اقدامات آئین شکنی کے مترادف ہیں لہذا ان کو فوری طور پر کالعدم قرار دیا جائے اور تحریک عدم اعتماد پر آج ہی ووٹنگ کروائی جائے۔

Back to top button