قدوس بزنجو کو جام کمال سے ملاقات مہنگی کیسے پڑ گئی؟

وزیراعلی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کو اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف سابق وزیر اعلی جام کمال خان عالیانی سے ایک حالیہ ملاقات مہنگی پڑ گئی ہے جس کے بعد انکے اتحادی ان سے ناراض ہوگئے ہیں اور ان کی حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ قدوس بزنجو اور جام کمال کی ملاقات کے بعد بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر سیاست گرم ہوگئی ہے اور وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کے خلاف سازش دوبارہ سے شروع ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ بزنجو اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر بھی ہیں جس کے 24 ارکان اسمبلی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ باپ پارٹی کے زیادہ تر اراکین وزیراعلیٰ کی جام کمال سے ملاقات اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر سخت ناراض ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب عبدالقدوس بزنجو کا موقف ہے کہ انہوں نے یہ ملاقات اپنی حکومت بچانے کے لیے کی کیونکہ باپ پارٹی کا ایک دھڑا جام کمال کی سربراہی میں ان کے خلاف متحرک ہونے کی کوشش کر رہا تھا، یہ دھڑا چند ماہ قبل وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کرچکا ہے جو ناکام رہی تھی۔
لیکن اس ملاقات سے قدوس بزنجو کو یہ نقصان ہوا ہے کہ ان کی حکومت میں شامل ہونے کو تیار جمیعت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اچانک پیچھے ہٹ گئی ہیں، یاد رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان پچھلے ماہ اپنی مشکلات کم کرنے کیلئے جے یوآئی اور بی این پی کو حکومت میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دے چکے تھے اور توقع تھی کہ جے یو آئی اس ہفتے کابینہ کا حصہ بن جائے گی اور ان کے ارکان تین وزارتوں کا حلف بھی اٹھا لیں گے، اس کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا بھی حکومت میں شمولیت کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
تاہم جام کمال سے وزیراعلیٰ بزنجو کی ملاقات کے بعد بی این پی اور جے یو آئی کی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے قدوس بزنجو کے خلاف سرگرم عمل ہو گئی ہیں۔ دونوں جماعتوں کو یہ گلہ ہے کہ جام کمال نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران اپوزیشن پر دھاوا بول کر ان پر بکتر بند گاڑیاں چلوا دی تھیں اور انکی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ ایسے میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی پارٹی اراکین اور فرینڈلی اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر جام کمال سے ملاقات کر کے ان سب کی ناراضی مول لی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے سابق وزیراعلیٰ سے ملاقات کر کے ایک بڑی سیاسی غلطی کی ہے جس کا فائدہ ہر لحاظ سے جام کمال کو اور نقصان قدوس بزنجو کو ہوگا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جام کمال نے شطرنج کی چال چلی ہے کیونکہ اب قدوس بزنجو اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کیلئے جام کمال گروپ کے محتاج بن گے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اور اے این پی کا ایک دھڑا پہلے سے ہی ان سے دوری اختیار کرچکا ہے۔
اسی دوران بلوچستان عوامی پارٹی میں اندرون خانہ قدوس بزنجو کی جگہ ایک نیا پارلیمانی لیڈر چننے کیلئے صلاح مشورہ شروع ہو گیا ہے اور توقع ہے کہ جلد بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی نئے پارلیمانی لیڈر کا چناؤ کریں گے، اس کے بعد آئین کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی پارلیمانی لیڈر کے حکم کے پابند ہونگے اور وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا مشکل ہوجائے گا جیسا کہ پنجاب میں ہوا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی میں نئے قائد ایوان کے چناؤ میں مسلم لیگ ق کے صدر کے احکامات کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمانی لیڈر کے احکامات کا پابند بنایا تھا جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ سے فارغ ہوگئے تھے اور پرویز الٰہی نئے وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عبدالقدوس بزنجو اپنی وزارت اعلٰی بچانے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟