قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا آج آئینی پیکج کی منظوری دینے کا امکان

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کی جانب سے آج قبل آئینی پیکج کی منظوری دینے کا امکان ہے۔

عدلیہ سےمتعلق آئینی ترامیم سےمتعلق بل حکمران اتحاد کی بھرپور کوششوں کے باوجود اتوار کو بھی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا، کیوں کہ حکومت آئینی ترمیم کی منظوری کےلیے درکار دو تہائی ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنےمیں ناکام رہی۔آئینی ترمیم کےمعاملے پر گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس کئی گھنٹے التوا کا شکار ہونےکے بعد 12 گھنٹےبعد شروع ہوا اور اسپیکر قومی اسمبلی نےاجلاس آج دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز شام 4 بجے ہونا تھا تاہم بعد ازاں یہ تاخیر کا شکار ہو ا اور پھر 4 گھنٹے بعد رات 8 بجےموخر کردیا تاہم 8 بجے بھی اجلاس شروع نہ ہوسکا، رات 11 بجے کےبعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا لیکن چند منٹ تک جاری رہا۔

مجوزہ آئینی ترامیم کی مزید تفصیلات سامنے آگئیں

قبل ازیں وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہوسکا، کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیاگیا تھا لیکن پھر اسے 3 بجے تک موخر کردیا گیاتھا اور پھر شام 5 ہونا تھا جو نہ ہو سکا۔

تاہم، طریقہ کار کےمطابق، آئینی ترمیم کو پہلے وفاقی کابینہ سےمنظوری دینی ہوگی، جس کا اجلاس آج متوقع ہے اور اجلاس میں آئینی پیکج کی منظوری دینےکا بھی امکان ہے۔

اس سےقبل وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھاکہ حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہےاور آئینی ترمیم ایک سنجیدہ معاملہ ہے تو جب تک وسیع تر سیاسی مشاورت مکمل نہیں ہوجاتی ہے تو اس پر آگےبڑھنے میں تھوڑی تاخیر ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اور جب آئین پاکستان میں ترمیم کی جاتی ہےتو بہت سنجیدگی سے ایک ایک شق اور لفظ پر غور کیاجاتا ہے، باقاعدہ بحث مباحثہ بھی ہوتاہے اور قانونی ماہرین سےایک ایک نکتے پر رائے طلب کی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنےکی تجویز دی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

تاہم آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کےحوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئے بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے مولانا فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد کی ملاقات کےبعد پی ٹی آئی وفد بھی پہنچ گیاتھا جس کی قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کی جب کہ وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، شبلی فراز اور صاحبزاہ حامد رضا شامل تھے۔

خیال رہے کہ آئینی ترمیم کےلیے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایون میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں، تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتاہے کہ حکومت کےپاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔

قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم کے 22 ارکان شامل ہیں۔اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کےساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 8 جب کہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کاایک ایک رکن موجود ہے۔

آئینی ترمیم کےلیے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کےلیے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔

سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینٹر ہے، اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔

Back to top button