قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران اسلام آباد میں تصادم کا خدشہ


وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسلام آباد میں ایک لاکھ افراد کا مجمع اکٹھا کرنے کے اعلان کے بعد دارالحکومت میں اپوزیشن اور حکومت کے حامیوں کے مابین تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ کپتان کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے یا باعزت طور پر شکست تسلیم کر کے وزارت عظمیٰ سے استعفی دینے کی بجائے اپنے حامیوں کو پارلیمنٹ کے باہر اکٹھا کر کے تصادم پر اکسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر ایک لاکھ لوگ اکٹھا کرنے کی بجائے قومی اسمبلی میں 175 اراکین کی اکثریت ثابت کرنے دیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔
وزیراعظم کی جانب سے ایک لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کے اعلان کے بعد اسلام آباد میں سیاسی درجہ حرارت بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے دن پارلیمنٹ کے باہر مجمع اکٹھا کرنے کی غرض سے تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر بھی مہم چلائی جا رہی ہے اور ٹوئٹر ٹرینڈز میں 3 اپریل کو ڈی چوک پہنچنے کی مہم ٹاپ ٹرینڈ کا حصہ بن چکی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے عمران خان نے فوجی قیادت کو یہ تجویز دی تھی کہ اگر اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لے لیں تو وہ اسمبلی توڑ کر انتخابات کا اعلان کردیں گے، لیکن اپوزیشن اتحاد نے اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔ عمران خان کی بدھ کو صحافیوں سے ملاقات کے بعد یہ خبریں گردش کرنے لگی ہیں کہ 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن ایک لاکھ افراد اسلام آباد میں موجود ہوں گے اور وہ ان منحرف اراکین اسمبلی کو نشان عبرت بنائیں گے جنہوں نے تحریک انصاف سے بغاوت کی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم نے بھی قوم سے اپنے آخری نشری خطاب کے دوران منحرف اراکین کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے ان کے خلاف ووٹ دیا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
دوسری جانب یہ ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین اسمبلی کے بغیر ہی کپتان کی اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کرلی ہے۔ اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ اتوار کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران منحرف اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں کہا جائے گا تاکہ انہیں اسمبلی رکنیت سے محروم ہونے سے بچایا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن 177 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کر چکی ہے لیکن پھر بھی احتیاط کے طور پر منحرف اراکین اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس میں لایا جائے گا تاکہ اگر 177 اراکین اسمبلی میں سے کوئی آگے پیچھے ہو تو باغی اراکین اسمبلی کے ووٹ ڈلوائے جا سکیں۔
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کی جانب سے ووٹنگ کے دن اسلام آباد میں ہنگامے کی سازش تیار کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے احکامات کے مطابق اس روز لا اینڈ آرڈر کو یقینی بنائے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان واضح ہدایات دے چکی ہے کہ ’تحریک عدم اعتماد کے دن کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا۔ عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو ووٹنگ کے دن پارلیمنٹ کے باہر مجمع جمع کرنے سے بھی روکنے کی ہدایت کر رکھی ہے جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان عدالت میں یہ یقنی دہانی کروا چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد والے دن پارلیمنٹ کے باہر کوئی جلسہ یا جلوس نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی رکن کو ووٹ دینے سے روکا جائے گا۔
اس حوالے سے تحریک انصاف کے ایک اعلیٰ عہدیدار نےبتایا کہ ’تحریک انصاف نے کارکنان کو 3 اپریل کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت نہیں کی، وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن لاکھوں لوگ خود پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف نے کارکنان کو کوئی کال نہیں دی، اگر کوئی اپنی مرضی سے اظہار یکجہتی کے لیے ڈی چوک پہنچتا ہے تو اسے روک تو نہیں سکتے۔‘ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ‘اسلام آباد کی انتظامیہ کو تاحال ایسی کوئی درخواست باضابطہ طور پر موصول نہیں ہوئی تاہم اگر کوئی بھی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بنتی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔‘
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اسلام آباد کی انتظامیہ کو ایک خط میں تحریک انصاف کی جانب سے ممکنہ ہنگامہ آرائی کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹنگ کے روز شہر میں لا اینڈ آرڈر برقرار رکھنا اس کی ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی نہیں برتی جانی چاہیے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر اتوار کے روز اسلام آباد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک ورکر وقاص امجد نے ٹویٹ کیا کہ مادر وطن کی خودمختاری کے دفاع کے لیے سڑکوں پر آنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
ایک اور ورکر مبشر وٹو نے وزیراعظم عمران خان کا جلسے سے خطاب کا پوسٹر شیئر کیا جس پر لکھا ہے ’چلو چلو ڈی چوک چلو۔‘
ٹوئٹر صارف آصف شیخ نے ’3 اپریل ایٹ ڈی چوک‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا کہ صرف ایک لاکھ نہیں بلکہ ایک کروڑ دل عمران خان کے ساتھ ہیں۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ اتوار کے روز شہر میں ہنگامہ آرائی ہونے دیتی ہے یا نہیں؟

Back to top button