محسن داوڑ کی نئی جماعت PTM کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟

وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر محسن داوڑ کی جانب سے باقاعدہ ایک علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کے اعلان کے بعد ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ نئی پارٹی منظور پشتین کی پی ٹی ایم کے وجود کے لیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔ محسن داوڑ کا اصرار ہے کہ انہوں نے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ پشتون تحفظ موومنٹ ایک غیر سیاسی جماعت ہے لہذا وہ بہ یک وقت دونوں جماعتوں کا حصہ رہیں گے۔ تاہم منظور پشتین نے واضح کیا ہے کہ وہ داوڑ کو پی ٹی ایم کا حصہ رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ داوڑ کی جماعت کے قیام کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ پارٹی پشتون خطے کے سیاسی ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے؟
محسن داوڑ کا اپنی نئی جماعت بارے کہنا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر پی ٹی ایم کا کوئی رکن سیاست میں حصہ لینا چاہے تو اسی سیاسی پلیٹ فارم سے جمہوری طریقے سے سیاست میں حصہ لے سکے۔ نئی پارٹی کا اعلان محسن داوڑ نے اپنے فیس بک پیج پر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ضلع صوابی میں ایک اجلاس کے دوران اصولی طور پر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہ اجلاس کچھ عرصے سے چلنے والے مشاورتی عمل کی ایک کڑی تھا جس میں سیاسی جماعت بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ پارٹی کے نام اور منشور کا اعلان عنقریب کر دیا جائے گا۔‘ یاد رہے کہ اس پارٹی میں محسن داوڑ کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما جمیلہ گیلانی سمیت کچھ دیگر رہنما شامل ہوں گے۔ اس سے پہلے آفرسیاب خٹک سمیت بشریٰ گوہر اور جمیلہ گیلانی کو عوامی نیشنل پارٹی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نکال دیا گیا تھا۔
محسن داوڑ کے نئی سیاسی جماعت کے بنانے کے اعلان کے حوالے سے سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں ان کو نہیں لگتا کہ اس خطے میں مزید قوم پرست سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہے کیونکہ پہلے سے موجود قوم پرست جماعتوں کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کا ثبوت عام انتخابات میں نتائج سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کو گزشتہ انتخابات میں بھی کوئی بڑی عوامی سپورٹ حاصل نہیں تھی اور قبائلی علاقوں کی 12 قومی اسمبلی کی سیٹوں میں سے صرف دو سیٹوں پر اسے کامیابی ملی تھی جبکہ صوبائی اسمبلی کی 16 میں سے صرف ایک نشت ملی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ داوڑ کی نئی سیاسی جماعت میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا کوئی ووٹ بینک موجود نہیں ہے جب کہ عوام کی طرف سے ان کو وہ حمایت بھی ملتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ افراسیاب خٹک اور دیگر کو عوامی نیشنل پارٹی سے نکال دیا گیا لیکن اے این پی کے ورکروں کی جانب سے کسی قسم کا رد عمل سامنے آیا اور نہ ان کی حمایت میں کوئی مظاہرہ دیکھا گیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ وقت بتائے گا کہ پی ٹی ایم کی جانب سے معاملات پر جو سخت ردعمل دیکھا گیا ہے کہ وہ اس سیاسی جماعت کا ہو گا یا نہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی ایم سے بھی محسن داوڑ کے حمایتی اس نئی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں گے۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ مجھے نئی جماعت کا مستقبل اتنا روشن دکھائی نہیں دیتا۔
گزشتہ چار دہائیوں سے خیبر پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار محمد ریاض نے بتایا کہ محسن داوڑ کی سیاسی جماعت کا حصہ بننے والے اہم چہرے ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ رہ چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو اب پارٹی سے نکالا جا چکا ہے۔انھوں نے بتایا کہ پشتون خطے کی سیاست میں عوامی نیشنل پارٹی کا ایک اہم کردار ہے کیونکہ یہ اس صوبے کی پرانی جماعت ہے اور یہی پارٹی پشتون قوم پرست جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تاہم جو لوگ عوامی نیشنل پارٹی سے نکل کر محسن داوڑ کی پارٹی کا حصہ بن رہے ہیں، یہ ماضی میں بھی اس طرح کی الگ جماعتیں بنا چکے ہیں۔ ریاض نے بتایا ’افراسیاب خٹک اے این پی میں رہے اور وہ اس جماعت کے ایک سر کردہ رہنما تھے لیکن وہ بھی ماضی میں اے این پی سے راستے جدا کر کے قومی انقلاب پارٹی نام سے اپنی ایک سیاسی جماعت بنا چکے تھے جس کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔ حتیٰ کہ اے این پی کے اپنے گھر میں بیگم نسیم ولی خان نے اے این پی سے جدا ہو کر اپنی سیاسی جماعت بنائی تھیں لیکن وہ آگے نہیں جا سکی۔‘ ریاض نہیں سمجھتے کہ اس خطے میں کسی نئی قوم پرست جماعت کو لوگوں کی جانب سے جگہ مل سکے۔ انھوں نے بتایا کہ غالب گمان یہی ہے کہ محسن داوڑ کی پارٹی قبائلی اضلاع پر نظریں مرکوز رکھے گی لیکن وہاں پر پہلے سے مختلف سیاسی جماعتیں مضبوط ہیں۔انھوں نے بتایا ’جنوبی اضلاع کی بات کی جائے تو وہاں پر مذہبی جماعتیں بالخصوص جمعیت علما اسلام مضبوط ہے جب کہ باجوڑ اور دیر کے علاقوں میں جماعت اسلامی کے حمایتی موجود ہیں۔ اسی طرح ضلع خیبر میں بھی مذہبی رجحان پایا جاتا ہے اور زیادہ تر جھکاؤ مذہبی جماعتوں کی طرف ہے۔‘
نئی سیاسی جماعت کے اعلان کے بعد محسن داوڑ سے جب پوچھا گیا کہ پہلے سے اتنی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں تو کیا آپ کی سیاسی جماعت اپنے لیے جگہ بنا پائے گی؟جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس پورے خطے میں ایک سیاسی خلا موجود ہے اور یہاں قوم پرست جماعتوں کی سیاست کچھ خاص لوگوں تک محدود ہوگئی ہے جس میں جمہوری طریقے سے فیصلے نہیں کیے جاتے۔انہوں نے بتایا کہ اسی خلا کو بھرنے کے لیے ’نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ہم نے رکھی ہے اور اس میں شامل رہنماؤں کا ماضی میں سیاست میں کیا کردار رہا، وہ الگ بات ہے لیکن ابھی ہم امید سے میدان میں اتر رہے ہیں تاکہ جمہوری سوچ اور اس خطے کی سیاست میں حصہ ڈال سکیں‘۔
محسن داوڑ نے بتایا کہ ’ماضی میں اگر کسی نے اس طرح کی کوشش کی ہے اور اپنی سیاسی جماعت بنائی ہے، تو اس لیے کامیاب نہیں ہوئے کہ اس وقت کمیونیکیشن کا نظام اچھا نہیں تھا اور لوگوں تک بیانیہ درست طریقے سے نہیں پہننچتا تھا۔ اب کمیونیکیشن نظام مضبوط ہے اور اگر سیاسی جماعت بہتر اور جمہوری طریقے سے اپنا پیغام ترتیب دے کر لوگوں تک پہنچائے تو لوگوں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’پی ٹی ایم کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس سیاسی خلا کو بھرنے کے لیے وہ آگے آئے تو لوگوں نے ان کو سپورٹ کیا کیونکہ لوگ پہلے سے موجود قوم پرست جماعتوں سے نالاں نظر آرہے ہیں۔‘
محسن نے بتایا کہ یہ سیاسی جماعت بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر پی ٹی ایم میں کوئی شخص سیاست میں حصہ لینا چاہے تو اسی سیاسی پلیٹ فارم سے جمہوری طریقے سے سیاست میں حصہ لے سکے گا۔انہوں نے بتایا کہ ’یہ بات میں واضح کر دوں کہ اس جماعت کی رہنمائی نوجوان کریں گے اور جسے بھی سیاست میں آنے کا شوق ہو تو یہ پلیٹ فارم ان کے لیے موجود ہوگا۔‘
دوسری جانب وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی جانب سے اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کے اعلان کے بعد ن کے سابق ساتھی اور پشتون تحفظ موومنٹ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ ’تحریک کے آئین کے مطابق دوسری پارٹی کا عہدیدار پی ٹی ایم کا حصہ نہیں رہ سکتا۔‘ تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ نئی جماعت کے اعلان کے بعد خیبر پختونخوا اور خاص کر سابق فاٹا کے علاقوں میں مقبولیت حاصل کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ میں ناصرف تقسیم واضح ہو گئی ہے بلکہ پی ٹی ایم کے مستقبل کے حوالے سے بھی خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔‘ لیکن منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی ایم ایک وسیع تحریک ہے جس کے بڑی تعداد میں ممبرز ہیں اور صوبے میں 95 فیصد لوگ اس کے اب بھی حمایتی ہیں۔‘ پشتین کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی ایم کا اپنا آئین، منشور اور اصول ہے جس کے مطابق کوئی دوسری پارٹی کا ممبر یا عہدیدار پی ٹی ایم کا عہدیدار نہیں ہو سکتا۔‘
دوسری طرف رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے منظور پشتین کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’وہ اب بھی پی ٹی ایم کا حصہ ہیں۔‘’ہم ابھی بھی پی ٹی ایم کا حصہ ہیں جو ہم نے بنائی ہے مگر وہ سیاسی جماعت نہیں ہے اور اس کے آئین میں ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی۔‘انہوں نے کہا کہ ’کیا منظور پشتین کے پاس منظور شدہ آئین ہے جس کے تحت دوسری جماعت کے لوگ پی ٹی ایم کا حصہ نہیں ہو سکتے؟ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے منظور پشتین کے ساتھ اختلافات ہیں تاہم محسن داوڑ نے اسے جمہوری عمل کا حصہ قرار دیا۔‘ محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’نئی سیاسی جماعت کا مقصد ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کرکے پارلیمانی جدوجہد کرنا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی ایم صرف پختون قوم کی ترجمان ہے جبکہ ان کی نئی جماعت میں تمام قومیتوں کی نمائندگی ہو گی۔ بہت سارے لوگ جو ظلم کا شکار ہیں وہ ہمارے ہم خیال ہیں تاہم ان کے پاس سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھا جہاں تمام سیاسی کارکن مل کر جدوجہد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ روایتی سیاسی جماعتیں چند خاندانوں تک محدود ہو گئی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعت کو ایک ادارہ بنا دیں جو سب کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی سیاسی جماعت کے نام پر مشاورت ہو رہی ہے تاہم منشور پر کافی کام ہو چکا ہے۔

Back to top button