مرکز میں اتحادی حکومت , سندھ پیپلز پارٹی سے چھین لیا جائے گا؟
الیکشن 2024 میں مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ نون بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہو گی ۔ مسلم لیگ نون اتحادی جماعتوں کو وفاقی کابینہ میں شامل کریگی، قومی اداروں کو سندھ کی بہت فکر ہے اور پیپلزپارٹی کے کسی نااہل وزیراعلیٰ کے حوالے سندھ نہیں کیا جائے گا۔ یہاں مسلم لیگ نون ،جی ڈی اے ،جمیعت علمائے اسلام (ف) ، آزاد اراکین اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے اچھی شہرت کا حامل وزیراعلیٰ لایا جاسکتا ہے۔ مستقبل کا یہ ممکنہ سیاسی منظر نامہ مسلم لیگ نون کی حمایت کا دم بھرنے والے کالم نگار حذیفہ رحمان نے اپنی ایک تحریر میں کیا ھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد نگران حکومت کے طویل ہونے کے سارے مفروضے دم توڑ چکے ہیں۔ عام انتخابات کو لے کر ادارے کی رائے تقسیم تھی۔ایک رائے یہ تھی کہ نگران کابینہ کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو سال کیا جائے۔جس میں اسٹیبلشمنٹ کی منتخب کردہ نگران حکومت زبردست کارکردگی دکھائے اور یوں نگران حکومت کی بہتر کارکردگی کا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ لے سکے ۔اس طرح عوام کی اکثریت جو کہ اس وقت مہنگائی اور بدا نتظامی سے نالاں ہے۔جب اسٹیبلشمنٹ کی من پسند نگران حکومت مہنگائی کو کم کرے گی تو عوام میں اسٹیبلشمنٹ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔یہ رائے رکھنے والوں کا یہ بھی خیال تھاکہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے بھی کچھ وزراء کے خلاف احتساب کی کارروائی کرے ،تاکہ عوام میں تحریک انصاف کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا تاثر زائل ہوسکے۔جب عمران خان اور تحریک انصاف کے درجنوں ممبران کے خلاف نیب کیسزدرج ہونگے اور ساتھ ساتھ ایک ،دو مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے وزراء کے خلاف بھی کارروائیاں ہوتی نظر آئیں گی تو اس سے عمومی تاثر جائے گا کہ بلا امتیاز احتساب کیا جارہا ہے۔اس طرح عمران خان کی خاطر اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ پانچ سال کے دوران جیسے اپنی ساکھ داؤ پر لگائی ہے ،نگران حکومت کی دو سالہ مدت سے وہ بحال ہوجائے گی۔جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقتور ترین شخصیات کی رائے قدرے مختلف تھی۔
حذیفہ رحمان لکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ ساز روز اول سے یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی مسائل کا حل جلد از جلد فوری عام انتخابات میں ہے۔اور عام انتخابات کے نتیجے میں بھی ایسی حکومت معرض وجود میں آئے ،جو کہ اپنی اتحادی جماعت کی بیساکھیوں پر نہ کھڑی ہو۔بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام جائے کہ ہم جس حکومت سے بات کررہے ہیں ،وہ سیاسی حوالے سے مستحکم ہے اور پانچ سال کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے۔اس لئے پاکستان سے ٹھوس بنیادوں پر بات کی جاسکتی ہے۔آج اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ سازوں نے حتمی فیصلہ کرلیا تھا کہ عام انتخابات میں آئینی گنجائش سے ہٹ کر ایک دن کی بھی تاخیر نہ کی جائے۔اس لئے عام انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔جبکہ اس انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں ایک مستحکم اور بیساکھیوں کے بغیر حکومت وجود میں آئے گی "۔ آج عام انتخابات کا فروری 2024ء میں انعقاد کا اعلان ہوچکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں
حذیفہ رحمان کے مطابق آج بھی مفروضوں کا بازار گرم ضرور ہے مگر 8 فروری پاکستان میں پولنگ کا دن ہوگا۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن بھاری مینڈیٹ سے کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ وفاقی حکومت میں مسلم لیگ ن اتحادی جماعتوں کو کابینہ میں شامل کریگی لیکن مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کسی اتحادی جماعت کی محتاج نہیں ہوگی۔سندھ کے حوالے سے حتمی فیصلے ہونا باقی ہیں لیکن اب تک کی معلومات کے مطابق سندھ کی قومی اداروں کو بہت فکر ہے اور پیپلزپارٹی کے کسی نااہل وزیراعلیٰ کے حوالے سندھ نہیں کیا جائے گا۔اس حوالے سے مسلم لیگ ن،جی ڈی اے،جے یو آئی ف،آزاد اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے اچھی شہرت کا حامل وزیراعلیٰ سندھ لایا جاسکتا ہے۔کیونکہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد تمام اسٹیک ہولڈرز کی اولین ترجیح پاکستان کو 2017 کے ٹریک پر واپس لاناہے اور اس مرتبہ پاکستان میں صرف پنجاب نہیں ہے بلکہ سندھ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔