مسلم لیگ ن اور استحکام پارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ناممکن کیوں؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کی ن لیگ کی قیادت سے ملاقات ایک سیاسی غلطی ہے ۔ استحکام پاکستان پارٹی نے تحریک انصاف کا متبادل بننے کا موقع بھی ضایع کر دیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور استحکام پاکستان پارٹی کے درمیان 44 سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ مکمل طورپر ناممکن ہے۔ کوئی بھی مفاہمتی فارمولہ اتنی بڑی تعداد میں سیٹوں پرایڈ جسٹمنٹ نہیں کرا سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) تواس پر بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوگی۔ اپنے ایک کالم میں مزمل سہروردی لکھتے ہیں کہ استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین جہانگیر ترین کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور بالخصوص شہباز شریف سے ملاقات نے میڈیا میں خبروں کا ایک شور برپا کر دیا ہے۔ہر طرف دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بہت اعتراض کیا ہے بلکہ یہ تک کہا ہے کہ پنجاب میں لیول پلیئنگ فیلڈ کو مزید خراب کیا جا رہا ہے۔تاہم اطلاعات کے مطابق جہانگیر ترین اور عون چوہدری، شہباز شریف کے پاس کسی وسیع پیمانے پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے نہیں بلکہ وہ دونوں صرف اپنی سیٹوں پر ایڈ جسٹمنٹ کے لیے گئے تھے۔انھوں نے ابتدائی طور پر صرف دو سیٹوں پر ن لیگ کو اپنا امیدوار نہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ جہانگیر ترین چاہتے ہیں کہ لودھراں میں ان کی آبائی سیٹ پر ن لیگ کوئی امیدوار نہ دے۔ اسی طرح عون چوہدری چاہتے ہیں کہ لاہورمیں ان کے اور ان کے بھائی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اپنا امیدوار نہ دے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر دونوں جماعتوں کے درمیاں پہلے کوئی انڈر اسٹینڈنگ نہیں تھی۔ لودھراں میںکانجو اور بلوچ سیاسی برتری کا تنازعہ چلا آرہا تھا، اس کا جہانگیر ترین کو سیاسی فائدہ ہوتا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کانجواور بلوچ امیدواروں کے باہمی مقابلے میں وہ سیٹ نکال لیں گے۔ لیکن خلاف توقع لودھراں میں کانجو اور بلوچ اتحاد ہوگیا ہے۔ یوں اس نشست پر جہانگیر ترین کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں ، اس لیے انھیں مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت پیش آئی ۔ دوسری طرف عون چوہدری کو پہلے دن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت تھے ۔ وہ نواز شریف کو لینے ائیر پورٹ بھی گئے تھے. لہٰذا انھوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔
مزمل سہروردی بتاتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی اس ملاقات کے بعد استحکام پاکستان پارٹی میں بھی ایک ہلچل پیدا ہوئی ہے۔ علیم خان بھی لاہور سے الیکشن لڑ رہے ہیں، وہ استحکام پاکستان پارٹی کے صدر بھی ہیں۔ انھوں نے کسی قسم کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے انکار کر دیا تھا تاہم بعدازاں علیم خان اور جہانگیر ترین کی ملاقات ہو گئی اور اختلافات کا تاثر ختم ہوگیا ہے۔اس کے بعد استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیٹ ایڈ جسٹمنٹ پر قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں ، یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ 44ناموں کی لسٹ بھی تیار ہو گئی ہے اور استحکام پاکستان پارٹی ان سیٹوں پر مسلم لیگ(ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ابتدائی طور پر دو سیٹوں پر بھی ایڈجسٹمنٹ ممکن نظر نہیں آرہی ، 44سیٹوں پر تو مکمل طورپر ناممکن ہے۔ بہتر تو یہی تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا باب کھولا ہی نہ جاتا۔ پہلے دن جو موقف لیا گیا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی ن لیگ کے خلاف الیکشن لڑے گی، اسی موقف کے ساتھ الیکشن میں جایا جاتا، استحکام پاکستان پارٹی کو تحریک انصاف کی جگہ لینے کا لئے ن لیگ کے مخالف والی جگہ لینی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ان کے لئے فوری نتائج نہیں آرہے تھے۔ لیکن سیاست صبر کا کھیل تھا۔ الیکشن کے قریب جا کر صورتحال بدل بھی سکتی ہے۔ اگر اس الیکشن میں وہ نتائج سامنے نہ بھی آتے تو اگلے الیکشن کی تیاری کی جا سکتی تھی۔
مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ نئی سیاسی جماعتیں راتوں رات نتائج نہیں دے سکتیں۔ جیسے جیسے تحریک انصاف کمزور سے کمزور ہوتی ویسے ویسے ان کے لیے جگہ بنتی۔ تا ہم لگتا ہے کہ جہانگیر ترین لمبی اننگ کھیلنے کے موڈ میں نہیں ہیں ان کی ن لیگ کی قیادت سے ملاقات ایک سیاسی غلطی ہے، ن لیگ سے ملا بھی کچھ نہیں اور سیاسی ساکھ پر بھی سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔ استحکام پاکستان پارٹی نے تحریک انصاف کا متبادل بننے کا موقع بھی ضایع کر دیا ہے۔ ملاقات سے پہلے یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے ۔ پنجاب میں سب ہی مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ن لیگ پیپلز پارٹی کو سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش کرے تو کیا پیپلزپارٹی نہیں مانے گی؟ بلاول فوری طور پر پہنچ جائیں گے۔ ن لیگ پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کر کے ایک سیاسی قیمت چکا رہی ہے تو استحکام پاکستان پارٹی سے کیسے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کری گی ، ایسا ممکن نہیں ہے۔