ترین گروپ کا اصل ایجنڈا فنڈز کھانا ہے یا حکومت گرانا؟


تحریک انصاف کے منحرف رہنما جہانگیر خان ترین کے ہم خیال ارکانِ اسمبلی کی وزیرِ اعلیٰٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات اور حکومت کی جانب سے صلح صفائی کا تاثر دینے کے باوجود اندر کی خبر رکھنے والوں کا اصرار ہے کہ ترین نے اپنا علیحدہ دھڑا تشکیل دے کر جس ایجنڈے پر کام شروع کیا ہے اسکا بنیادی مقصد اپنے ساتھیوں کو حکومتی فنڈز دلوانا نہیں بلکہ تبدیلی لانا ہے اور وہ یہ ایجنڈا پورا کر کے رہیں گے۔
یاد رہے کہ ترین گروپ کی جانب سے عثمان بزدار کو نکالنے کے لیے اگلے بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کی افواہوں کے بعد بزدار نے 1 مئی کو ترین گروپ کے نمائندوں کو ملاقات کے لیے وزیراعلی ہاؤس بلا کر انکے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ ملاقات کے بعد حکومت پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ ترین گروپ کے تمام اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں اور کسی بھی رکن اسمبلی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ ملاقات میں ترین گروپ کے اراکین نے وزیراعلی کو دو بنیادی تحفظات سے آگاہ کیا جن میں پہلا پوکیس کے ذریعے ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تھا اور دوسرا انہیں دیگر اسمبلی اراکین کی طرح ترقیاتی فنڈز کا جاری نہ کیا جانا تھا۔ وزیراعلی افس کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ ملاقات کے بعد ترین گروپ کے اراکین اسمبلی نے عثمان بزدار کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں سیاسی طور پر چند دن سے جہانگیر ترین اور ان کے ساتھی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک بار پھر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جہانگیر ترین گروپ نے حکومت پنجاب کی جانب سے اپنے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے ردعمل میں میں بجٹ سمیت دیگر اہم امور پر بزدار حکومت کا ساتھ نہ دینے کا عندیہ دیا تھا۔ اس کے بعد ان افواہوں نے زور پکڑ لیا تھا کہ اگر ترین نے اگلا بجٹ پاس کروانے مین حکومت پنجاب کا ساتھ نہ دیا تو وزیراعلی کی چھٹی ہو جائے گی۔ تاہم اب بظاہر صورتِ حال تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ 21 مئی کو ترین گروپ کے دو ارکان نذیز چوہان اور سعید اکبر نوانی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے لیکن انہوں نے اپنے علان کے مطابق حکومت مخاکف اپنی آئندہ حکمتِ عملی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ خیال رہے کہ ترین گروپ نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اکٹھے شریک ہو کر اپنی حکمتِ عملی کا اعلان کرنے اور اپنا الگ پارلیمانی لیڈر نامزد کرنے سمیت دیگر اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ بزدار نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ترین گروپ کے نمائندوں سے ملاقات کر لی اور ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔
پنجاب اسمبلی میں ترین گروپ کے نامزد رہنما رکنِ اسمبلی سعید اکبر نوانی کہتے ہیں کہ اُن کے گروپ کا ایوان میں الگ نشستوں پر بیٹھنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں۔ سعید اکبر نے پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار ہی اُن کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ وہ انہیں وزیرِ اعلیٰ مانتے بھی ہیں اور اُن کے ساتھ کھڑے بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بنیادی مقصد اپنے گروپ اور جماعت کے ساتھ رہ کر مسائل حل کرنا ہے۔ نوانی نے کہا کہ تحفظات ہوتے ہیں لیکن وہ ختم بھی ہو جاتے ہیں لہازا ہم ابھی علیحدہ نشستوں پر نہیں بیٹھیں گے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے میڈیا سے بات کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے ناراض رہنما ترین نے الزام لگایا تھا کہ پنجاب حکومت اُن کے ساتھیوں کے خلاف بھی انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ اِس موقعہ پر ترین نے پنجاب اسمبلی میں اپنے علیحدہ گروپ کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے سعید اکبر نوانی کو پنجاب اسمبلی میں اپنا پارلیمانی لیڈر مقرر کیا تھا۔
21 مئی کو اپنی حکومت بچانے کی کوشش میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ترین لے ہم خیال گروپ کے جس چھ رکنی وفد سے ملاقات کی اس میں سعید اکبر نوانی، اجمل چیمہ، نعمان لنگڑیال، زوار وڑائچ، نذیر چوہان، عمر آفتاب اور عمران خان کے سابق قریبی دوست عون چوہدری شامل تھے۔ملاقات کے بعد وزیرِ اعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اراکینِ اسمبلی نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملاقات کے دوران ترین گروپ کے سربراہ سعید اکبر نوانی نے کہا کہ تمام ارکان کو آپ کی قیادت پر پورا اعتماد ہے۔ وہ ایک تھے۔ ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعید اکبر نوانی نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے کہا کہ عثمان بزدار اُن کے وزیرِ اعلیٰ ہیں اور انہی کے پاس وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں۔ تحریک انصاف ان کی جماعت ہے اور اس جماعت سے غیر مشروط وابستگی برقرار رہے گی۔
سرکاری بیان کے مطابق عثمان بزدار نے کہا کہ اُن کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ کبھی کسی سے نا انصافی کی اور نہ ہی کریں گے۔ انتقامی سیاست اُن کا شیوہ نہیں ہے۔ بزدار نے ترین گروپ کے ارکانِ اسمبلی سے کہا کہ اُن کے جائز تحفظات دور کیے جائیں گے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں متحد ہیں۔ اُن کی جماعت کا نام تحریکِ انصاف ہے اور وہ انصاف کی عمل داری پر یقین رکھتے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد ترین گروپ کے وفد میں شامل نعمان لنگڑیال نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے ساتھ اُن کی ملاقات مثبت رہی۔ اُنہوں نے تحفظات دور کر دیے ہیں اور آنے والے دِنوں میں مزید تحفظات دور ہو جائیں گے۔ وہ پی ٹی آئی میں تھے اور رہیں گے۔
تاہم اندر کے معاملات سے آگاہی رکھنے والے ذرائع کا دعوی ہے کہ مسئلے اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے کہ بتائے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل کھیل پنجاب میں نہیں مرکز میں کھیلا جائے گا اور اصل ایجنڈا بزدار کے اقتدار کے خاتمے سے زیادہ کپتان کے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ ترین گروپ سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے منتقم مزاج عمران خان سے براہ راست ٹکر لینے کا فیصلہ صرف ترقیاتی فنڈز کے حصول اور پولیس کی کارروائیوں سے بچنے کے لئے نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان خود سے ٹکر لینے والے شخص کو کبھی معاف نہیں کرتے اس لیے اب ترین گروپ ایک حقیقت ہے اور اس کی بقا صرف اکٹھے رہنے میں ہے، اس لیے یہ سمجھ لینا کہ بزدار سے ملاقات کے بعد ترین گروپ کا ایجنڈا بدل گیا ہے، غلط ہوگا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں پہپے مرحلے میں ترین اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ریلیف حاصل کریں گے اور ابھی وہ عمران خان کے خلاف آخری حد تک جانا نہیں چاہتے۔ انکا کہنا تھا کے ترین بہت محتاط سیاستدان ہیں اور جب تک انہیں اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہوگا وہ عمران خان پر آخری حملہ نہیں کریں گے۔ سہیل وڑائچ کی رائے میں ترین گروپ کی جانب سے بزدار مخالف مہم شروع کیے جانے کے بعد مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کھل کر بزدار مخالف مہم کا حصہ بنی تھی اس لیے ابھی ترین گروپ نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا لی ہے۔ سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف اور عمران کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن کی حکومت اتحادی جماعتوں کے ووٹوں کے باوجود عددی طور پر کم اکثریت سے کھڑی ہے اور اگر ترین گروپ واقعی الگ ہو جاتا ہے یا فارورڈ بلاک بنا لیتا ہے تو وفاق اور صوبوں میں حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا۔ وڑائچ کے بقول عمران کی حکمتِ عملی یہ ہو گی کہ بغاوت کو زیادہ ہوا نہ دی جائے اور فی الوقت حکومت بچانے کے لیے اِن لوگوں کو ساتھ رکھا جائے۔
واضح رہے کہ ترین کے خلاف شوگر سکینڈل میں ایف آئی اے کی کارروائی پر وزیرِاعظم نے گزشتہ ماہ ان کے ہم خیال گروپ سے ملاقات کی تھی اور انکے مطالبے پر بیرسٹر علی ظفر کو تحقیقات سونپ دی تھیں۔ جہانگیر ترین اور اُن کے بیٹے علی ترین کے خلاف ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کیس کے تحت مقدمات درج کر رکھے ہیں جس کے بعد سے عمران خان اور ترین میں اختلاف کی خبریں سامنے آ رہی تھیں۔ تاہم اس ملاقات کے باوجود گروپ کے تحفظات دور نہیں ہو سکے تھے جس کے بعد پچھلے ہفتے باغی اراکین نے ہم خیال گروپ تشکیل دینے کا اعلان کر دیا۔

Back to top button