مشرف نے لندن اور دبئی میں 40 کروڑ کے فلیٹس کیسے خریدے؟


عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے بعد احمد نورانی نے فیکٹ فوکس کے لیے ایک اور رپورٹ میں اعدادوشمار کے ساتھ سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے آمدن سے زائد اثاثوں کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات کیے ہیں۔ نورانی کی تحقیقات کے مطابق 2008 میں فوج سے ریٹائرمنٹ کے وقت مشرف کو صرف دو کروڑ روپے کے بقایاجات ملے تھے لیکن انہوں نے اگلے ہی برس 2009 میں لندن اور دبئی میں تقریبا 40 کروڑ روپے مالیت کے دو فلیٹس خریدے۔ لیکن مشرف سمیت یہ کوئی نہیں بتا پایا کہ انہوں نے یہ 40 کروڑ کہاں سے حاصل کیے؟
احمد نورانی کی تحقیقات کے مطابق برطانیہ کی سرکاری دستاویزات بتاتی ہیں کہ جنرل مشرف نے لندن میں 2013 میں 20 کروڑ روپے مالیت کا ایک فلیٹ خریدا۔ بعد ازاں اسی دورانیہ میں انہوں نے 20 کروڑ روپے مالیت کا ایک اور فلیٹ دبئی میں خریدا حالانکہ ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت ان کو فوج سے بقایا جات کی صورت میں 2 کروڑ روپے دیے گئے تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ 2013 کے الیکشن سے پہلے مشرف کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروائے گئے دستاویزات کے مطابق تب تک جنرل مشرف نے اپنی آرمی سروس کے عوض ملنے والے پلاٹس اور فارم ہاؤس کو بھی فروخت نہیں کیا تھا جن کی رقم سے وہ لندن کے فلیٹس خریدتے۔
خیال رہے کہ جنرل مشرف نے 2008 کے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ کی جانب سے اپنے خلاف ایک امپیچمنٹ کی تحریک کا سامنا کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا تھا اور پھر اپریل 2009 میں پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ تب تک انہوں نے اپنے نام نہاد بین الاقوامی لیکچرز شروع بھی نہیں کیے تھے جن کی مد میں اکٹھی گئی آمدن کو وہ اپنے فلیٹس کا ذریعہ خرید بتا سکتے۔ 13 مئی 2009 کو انہوں نے 1.35 ملین پاؤنڈ ادا کرکے لندن میں فلیٹ ہائیڈ پارک کریسنٹ خریدا تھا۔ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثوں کی تفصیل کے مطابق ان کی دو غیر ملکی منقولہ جائیدادیں ظاہر ہوتی ہیں۔ پہلی کا ایڈریس ہے 1- 28 ، کیسل ایکڑ ، ہائڈ پارک کریسنٹ ، لندن اور دوسری کا پتہ ہے 2- 3902 ، ساؤتھ برج ٹاور 6 ڈاون ٹاؤن ، دبئی ، متحدہ عرب امارات۔
متحدہ عرب امارات کے فلیٹ کو بھی جنرل مشرف نے اسی عرصے میں خریدا تھا اور املاک ماہرین کے مطابق اس کی مالیت خریداری کے وقت 20 کروڑ پاکستانی روپے سے زیادہ تھی۔ سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ قومی احتساب بیورو کے پاس یہ تمام تفصیلات موجود تھیں لیکن اس نے تب بھی سابقہ ڈکٹیٹر کے خلاف مناسب تحقیقات شروع کرنے کے لئے اقدامات نہ کیے۔ مشرف نے 2009 میں پاکستان چھوڑنے کے بعد چند ماہ میں ان جائیدادوں کی ادائیگی کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ جائیدادیں انہوں نے بین الاقوامی لیکچرز شروع سے حاصل ہونے والی آمدنی سے خریدیں ہیں۔ لیکن اس سے قبل وہ لندن اور متحدہ عرب امارات میں رہائشی پلاٹ ، مکانات ، تجارتی جائیدادیں اور فارم ہاؤس خرید چکے تھے جن کی قیمت لگ بھگ 400 ملین روپے تھی۔ یہ معاملہ اب بھی نیب کے پاس تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ طویل عرصے سے زیر التوا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مشرف نے سنہ 2010 میں اپنے بین الاقوامی لیکچرز سے آمدنی حاصل کرنا شروع کی تھی۔ لیکن انکا اصرار ہے کہ انہوں نے بین الاقوامی لیکچرز کی آمدنی سے لندن اور متحدہ عرب امارات کے فلیٹس خریدے حالانکہ فلیٹ تو 2009 میں خریدے گئے تھے اور محدود لیکچرز کا سلسلہ 2010 میں شروع ہوا تھا جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔
دوسری طرف پرویزمشرف کا یہی موقف تھا کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ رکھنے والے افراد میں سے ایک تھے جو بین الاقوامی فورموں اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتے تھے۔ احمد نورانی نے مشرف کے ترجمان سے سوال کیا کہ کس طرح مشرف اپنی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد اتنی بڑی رقم سے دو جائیدادیں خریدنے میں کامیاب ہوئے جب کہ اپنی پنشن کی رقم انہوں نے خریدی گئی جائیدادوں کی کل قیمت کے مقابلے میں بہت کم بتائی تھی۔ جواب میں مشرف کے ترجمان نے کہا کہ یہ مشرف کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مشرف کی جانب سے جمع کرائے گئے ریکارڈ کے مطابق ان کے پاس پاکستان میں بھی تقریبا 20 کروڑ روپے مالیت سے زائد کی آٹھ جائدادیں ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:
1- مکان نمبر 6 ، آرمی ہاؤسنگ سکیم پارٹ II- کلفٹن کینٹ ، کراچی ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 50،000،000)؛
2- پلاٹ نمبر 172 ، خیابان فیصل ، فیز 8 ، ڈی ایچ اے ، کراچی ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 15،000،000)؛
3- پلاٹ نمبر 301 ، بیچ اسٹریٹ نمبر 1 ، فیز 8 ، ڈی ایچ اے کراچی ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 15،000،000)؛
4- پلاٹ نمبر 1 ، (200 مربع گز یارڈز کمرشل) ، سیکٹر ایف ، ڈی ایچ اے ، فیز 2 ، اسلام آباد ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 5،000،000)؛
5- پلاٹ نمبر سی سی 1 ، (200 مربع گز یارڈز کمرشل) ، سیکٹر سی سی اے ، ڈی ایچ اے ، لاہور ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 60،000،000)؛
6- فارم نمبر C-1 / B ، (5 ایکڑ) ، پارک روڈ ، چک شہزاد ، اسلام آباد ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 60،000،000)؛
7- پلاٹ نمبر 1 ، 5-A-E ، فیز 3B ، سنگر ہاؤسنگ اسکیم ، گوادر ، (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 160،000)؛
8- مکان نمبر 25 ، آرمی ہاؤسنگ اسکیم ، حصہ 2 ، کلفٹن کینٹ ، کراچی ، بیگم صہبا مشرف کے نام سے (اعلان شدہ مارکیٹ ویلیو: 40،000،000)۔
اگرچہ مشرف انتخابات لڑنے کیلئے نااہل قرار پائے تھے کیونکہ جولائی 2009 میں سپریم کورٹ نے انہیں غاصب اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والا آمر قرار دیا تھا، لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام آباد الیکشن ٹریبونل کے جج نے بھی مشرف کو انکے اثاثوں اور آمدن میں واضح تضاد کی وجہ سے انتخابات لڑنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا۔ 7 اپریل 2013 کو لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کی رپورٹ میں مشرف کے بینک کھاتوں میں بڑی رقم اور غیر منقولہ جائیداد کی عکاسی نہیں ہوتی ہے اور انہوں نے اپنے پاکستانی کھاتوں میں رقم آنے کے باوجود کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ لہذا انہیں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم جب نیب ذرائع سے پوچھا گیا کہ جنرل مشرف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیوں نہیں بنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف ملک سے باہر ہیں اور ان کے خلاف کوئی تازہ درخواست بھی موصول نہیں ہوئی.
یاد رہے کہ مشرف پاکستانی آئین توڑنے کے جرم میں غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے بیماری کی آڑ میں ملک سے فرار ہوگئے تھے جس کے بعد ایک خصوصی عدالت نے انہیں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غدار قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ تاہم مشرف ابھی تک مفرور ہے اور دبئی میں قیام پذیر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button