ملکہ ترنم: سارا جہاں نور جہاں کا دیوانہ تھا اور وہ اعجاز کی دیوانی

نورِجہاں ایک ایسا احساس ہے جو جہان کے لیے راحت کا پیغام ہے: خوشخبری ہے، خوش الہانی اور نیک نامی ہے۔ نورجہاں اپنے وابستگان کے لیے ہزاروں خوش بختیوں کا باعث بنیں تو دنیا میں ان گنت سننے والوں کی سماعتوں میں شہد گھولنے کی نیکیاں برسوں سے اپنے نام کر رہی ہیں۔نورجہاں کی پہلی شادی شوکت حسین رضوی سے سنہ 1944 میں ہوئی جب وہ ’بے بی نورجہاں‘ سے ’نورجہاں‘ ہوئیں۔ نورجہاں اور شوکت حسین رضوی کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے جن میں اکبر رضوی (اکو میاں)، ظل ہما اور اصغر رضوی (اچھو میاں) شامل ہیں۔ شوکت حسین رضوی ناصرف نور جہاں کے شوہر رہے بلکہ گرو بھی تھے۔نورجہاں کی دوسری شادی اعجاز درانی سے سنہ 1959 میں ہوئی جب وہ ’سُپرسٹار‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’ملکہ ترنم‘ کا لقب پا چکی تھیں۔ اعجاز درانی بھی ان کی زندگی میں لگ بھگ 12 سال تک رہے اور اس عرصے کے دوران ان کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں حنا، شازیہ اور ٹینا شامل ہیں۔اعجاز درانی سے ان کی محبت اور بعد ازاں طلاق کا احوال آگے چل کر، مگر پہلے ان کی زندگی پر ایک نظر۔نورجہاں نے گانا اس وقت سیکھنا شروع کیا جب وہ منھ سے ’توتلے‘ الفاظ ادا کر پاتی تھیں۔
نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا اور وہ ضلع قصور کے علاقے کوٹ مراد خاں میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ان کے اُستاد غلام محمد المعروف گامے خاں بتاتے تھے کہ اللہ وسائی سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ صرف چار دن کی تھیں اور جب ان کے اہلخانہ انھیں ’جھنڈ اتروانے‘ (نوزائیدہ بچوں کے بال اتروانے کی رسم) اور سلام کرنے کے لیے بابا بلھے شاہ کے مزار پر لے جا رہے تھے۔اللہ وسائی نے اپنے گھرانے کی روایت کے مطابق گانا اُسی وقت سیکھنا شروع کیا جب وہ منھ سے ’توتلے‘ الفاظ ادا کرتی تھیں۔ سات برس کی عمر میں اللہ وسائی اپنی بہن عیدن بائی اور کزن حیدر باندی کے ساتھ قصور اور آس پاس کے علاقوں میں ننھی مغینہ کے طور پر مشہور ہو چکی تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button