مولانا کی ناراضی کے باوجود حکومت کو ترامیم منظوری کی امید

مذاکرات کے نام پر آئینی ترامیمی پیکج کی منظوری کو ایک مہینہ تک التوا میں ڈلوانے کے بعد مولانا فضل الرحمن آخری لمحات میں ایک مرتبہ پھر حکومت سے ناراض ہو گئے ہیں اور دھمکیوں پر اتر آئے ہیں جس کے بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ایک مرتبہ پھر ملتوی کر دیا گیا ہے اور سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کا وقت بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

بظاہر حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کا پیکج منظور کرانے کی کوشش ایک مرتبہ پھر التوا کا شکار ہو گئی ہے، تاہم حکومتی ذرائع اس امکان کا اظہار کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن اف پاکستان جمعہ کے روز مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کر دے گا جس کے بعد حکومت کی دو تہائی اکثریت بحال ہو جائے گی اور وہ آئینی ترامیم کا پیکج پاس کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کےساتھ ایک مشترکہ آئینی ترمیمی پیکج کے ڈرافٹ پر مان چکے تھے لیکن رات گے تحریک انصاف کی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد ان کا ذہن ایک مرتبہ پھر بدل گیا اور انہوں نے دھمکی آمیز رویہ اپنا لیا۔ مولانا کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال تب خراب ہوئی جب جمیعت علماء اسلام کے ایک سینٹر کے اغوا کی خبر سامنے آئی۔ چنانچہ مولانا نے بیرسٹر گوہر خان کے ہمراہ میڈیا بریفنگ دیتے یعئے حکومت کو جمعے تک معاملات بہتر کرنے کا الٹی میٹم دینے دیا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ان کے ساتھ بدمعاشی کرے گی وہ تو وہ اس سے بھی زیادہ بدمعاشی کر کے دکھائیں گے۔

دوسری جانب شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی مولانا فضل الرحمن کو فوری طور پر راضی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جمعرات کی شب وزیراعظم شہباز شریف رات گئے بغیر کسی پروٹوکول کے مولانا فضل الرحمان کے گھر پہنچے۔ ان کے ساتھ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی تھے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری پہلے سے ہی مولانا کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ ملاقات میں آئینی ترامیم پر تبادلہ خیال ہوا، تاہم وزیراعظم اور بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور آئینی ترامیم پر کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔

ذرائع کے مطابق مولانا نے جے یو آئی اراکین اسمبلی کو ہراساں کرنے پر سخت ناراضی ظاہر کی۔ انہوں نے وزیراعظم اور بلاول بھٹو سے شکایت کی کہ ایک طرف انہیں آئینی ترامیم پر راضی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری طرف انہی کے اراکین پارلیمنٹ کو غائب کیا جا رہا ہے۔

مولانا نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں آئینی ترامیم کے لیے متفقہ لائحہ عمل پر غور کر رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کے اراکین کو دباؤ میں لانے اور آفرز دینے کا سلسلہ ترک کرے۔ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اعتماد کی فضا قائم کرنا ہوگی، اور حکومت کو جے یو آئی کی جانب سے دیے گئے مسودے کو ترجیح دینی چاہیے۔

پی پی پی اور ن لیگ آئینی عدالت کی بجائے بینچ بنانے پر تیار کیوں؟

ملاقات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو میڈیا سے گفتگو کے بغیر مولانا فضل الرحمان کے گھر سے روانہ ہوئے تاہم بلاول بھٹو نے جاتے ہوئے گاڑی سے وکٹری کا نشان بنایا۔ اس سے قبل مجوزہ آئینی ترمیم پر جمعیت علما اسلام اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے درمیان طویل ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پی ٹی آئی کے وفد اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان آئینی ترامیم کے مسودے پر مشاورت ہوئی۔ ملاقات میں پی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجہ، اسد قیصر، عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، حامد خان اور صاحبزادہ حامد رضا شامل تھے۔

تحریک انصاف کی قیادت کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا نے کہا کہ ’اگر بدمعاشی ہو گی تو ہم بھی ویسا ہی رویہ اپنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا پہلا حکومتی مسودہ ہم نے پہلے بھی مسترد کیا تھا اور آج بھی مسترد کرتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر تین ہفتوں سے مشاورت جاری ہے۔ ہم نے حکومت سے مذاکرات کیے اور اس حوالے سے نمائندوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔‘ مولانا کا کہنا تھا کہ دو دن قبل بلاول بھٹو کے ساتھ اس معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی اور پھر گزشتہ روز 4 گھنٹے تک نواز شریف سے بھی بات چیت ہوئی۔ جن نکات پر اتفاق ہوا تھا ان کا اعلان کیا جا چکا ہے جب کہ باقی متنازع نکات پر بات چیت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے خبردار کیا کہ ’اگر اراکین پارلیمینٹ کو ہراساں کرنے اور خریدنے کا سلسلہ صبح تک نہ رکا تو حکومت یاد رکھے کہ ہم سخت رویہ اختیار کریں گے۔ ہمارے خلوص اور سنجیدگی کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر متنازع ترمیم کے لیے زبردستی ووٹ لیے جائیں گے تو یہ جمہوریت نہیں ہوگی۔ ’ہم دونوں جماعتوں نے اپنے اراکین کو آرٹیکل 63 اے کے تحت نوٹس جاری کر دیے ہیں، جس میں انہیں پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ دینے کا پابند کیا گیا ہے۔‘

خیال رہے کہ اتفاق رائے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ روز سینیٹ میں اتحادی جماعتوں کے ارکان کو ظہرانہ دیا گیا تھا جس میں اہمیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی نے مجوزہ آئینی ترمیم پر سینیٹرز کو بریفنگ دی تھی۔

یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ حکومت کے پاس سینٹ میں نمبر گیم پورے ہو گئے ہیں اج جمعے کو سینٹ میں ترمیم پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

لیکن مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ایک بار پھر سخت موقف اپنانے کے بعد صورت حال ایک بار پھر کافی تبدیل ہو چکی ہے جس میں حکومت کے لیے مولانا کو منائے بغیر کسی بھی ایوان سے آئینی ترمیم بل منظور کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

تاہم حکومتی ذرائع اس امکان کا اظہار کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن اف پاکستان جمعہ کے روز مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کر دے گا جس کے بعد حکومت کی دو تہائی اکثریت بحال ہو جائے گی اور وہ آئینی ترامیم کا پیکج پاس کروانے میں کامیاب ہو جائے گی

Back to top button